مرکزی حکومت نے بدھ کے روز کشمیر میں نظر بند افراد کی رہائی کے بارے میں کہا کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعات اور امن و امان میں خلل ڈالنے کی روک تھام کے لیے یہ نظربندیاں عمل میں لائی گئی ہیں اور ان کی رہائی کے بارے میں کوئی معلومات عوامی نہیں کی جائے گی۔
وزارت داخلہ نے 5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کرنے کے اقدام کے بعد جموں و کشمیر میں زیر حراست افراد کی رہائی کے بارے میں تفصیلات بتانے سے انکار کردیا ہے۔
حراست میں لیے گئے افراد میں سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبد اللہ، محبوبہ مفتی ، درجنوں ہند نواز سیاسی رہنما، علیحدگی پسند رہنما اور دیگر افراد شامل ہیں۔
حکومت نے کہا کہ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد کئی سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے، تاکہ کوئی خوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ 4 اگست سے کُل 5161 افراد کو احتیاطی نظر بند یا گرفتار کیا گیا ہے جن میں پتھراؤ کرنے والے اور سابق وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں۔
حکومت نے مزید کہا کہ چونکہ یہ نظربندیاں متعلقہ مجسٹریٹس کے ذریعہ قانونی دفعات کے تحت کی گئیں ہیں، لہذا حکومت ان کی رہائی کے متعلق مکمل تفصیلات فراہم نہیں کی جاسکتی ہے۔
واضح رہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے 5 اگست کو دفعہ 370 کو ختم کر کے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو خطوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا۔
اس فیصلے سے چند گھنٹے قبل سینکٹروں سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا۔ تین ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ان گرفتار شدگان میں سے بیشتر ابھی تک رہا نہیں کئے گئے ہیں۔ اکثر گرفتار رہنماؤں کے خلاف مقدمہ بھی درج نہیں کیا گیا ہے۔
دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد 5161 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جن میں ہند نواز سیاسی رہنما، پتھر بازی میں ملوث افراد، لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین عسکریت پسند تنظیموں کے معاون، جماعت اسلامی اور حریت کانفرنس رضا کار اور کارکنان شامل ہیں۔