جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان کے رہنے والے محمد اکبر 30سال کی عمر میں حادثے کے سبب معذور ہوئے تھے۔
ہمت کہیں یا مجبوری 65سال کی عمر میں بھی محمد اکبر روزانہ خود کو اور اپنے اہل خانہ کو فاقہ کشی سے بچانے کی غرض سے گھسیٹ گھسیٹ کر گھر سے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں۔
محمد اکبر نے بھی فلاحی اسکیموں کے لیے سرکاری دفاتر کے چکر کاٹے، تاہم انکے مطابق ہر بار ان سے مذاق کیا گیا۔
محمد اکبر کی شکایت ہے کہ سرکار کی جانب سے وضع کی جانے والی فلاحی اسکیمیں کاغذوں تک ہی محدود ہوتی ہیں۔ کیونکہ محمد اکبر کو معلوم ہوا ہے کہ معذور افراد کی باز آبادکاری کے لیے سرکار کی جانب سے ایک اسکوٹی (Scooty) فراہم کی جاتی ہے۔
اکبر کے مطابق انہوں نے بھی کاغذات جمع کیے تاہم کئی برسوں کے انتظار کے بعد بھی انہیں اس اسکیم کے تحت کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی۔
اس ضمن میں جب ای ٹی وی بھارت نے محکمہ سوشل ویلفیئر کے افسران سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے محمد اکبر کو اسکوٹی فراہم کرنے سے یہ کہہ کر معذرت ظاہر کی کہ اسکوٹی 60برس کی عمر تک کے معذور افراد کے لیے مختص ہے۔ اور محمد اکبر کی عمر 60برس سے زائد ہے۔
محمد اکبر کی طرح طارق احمد بھی حادثے کے سبب معذور ہو گئے تھے۔ پیشے سے ترکھان طارق احمد اب بھی اپنے ہنر کے ذریعے اہل و عیال کی کفالت کرنا چاہتے ہیں، تاہم معذور ہونے کے سبب وہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کام بھی کام نہیں کر پاتے ہیں۔ اپنی زوجہ، بوڑھی ماں اور تین بچوں کے لیے نان شبینہ جُٹا پانا طارق کے لیے دشوار ہو رہا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بھی کسی سرکاری اسکیم کے تحت اس قابل بنایا جائے کہ وہ خود روزگار کما سکیں اور وہ دوسروں کی مدد کے محتاج نہ رہیں۔
اس حوالے سے ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر آفسر شوپیان نے ای ٹی وی بھارت کو فون پر بتایا کہ دونوں افراد کو ماہانہ اولڈ ایج پینشن اسکیم اور ہینڈی کیپ پینشن اسکیم کے تحت ایک ہزار روپے انکے بینک کھاتوں میں جمع کیے جاتے ہیں۔ جبکہ ان دونوں افراد کو اسکوٹی فراہم نہ کیے جانے کی انہوں نے وجہ بھی بتائی، وجہ ہے ’’محمد اکبر کی عمر‘‘ اور ’’طارق احمد کی جانب سے کاغذی لوازمات کو پورا نہ کرنا۔‘‘
بہر حال، ضرورت اس امر کی ہے کہ محمد اکبر اور طارق جیسے با ہمت جسمانی طور ناخیز افراد کی بازآبادکاری کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں تاکہ وہ بھی معاشرے میں سرخرو ہوکر خود روزگار کما کر دوسرے افراد کی امداد کے محتاج نہ رہیں۔