ETV Bharat / state

ریاسی: اپنی قسمت پر آنسو بہاتا بھیم گڑھ قلعہ - عوام کے لیے کھول دیا گیا

موجودہ وقت میں اس قلعہ کی حالات انتہائی خستہ ہو چکی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی عدم توجہی اور جموں لیڈرشپ کی لاپرواہی کی وجہ سے قلعہ کے آس پاس اور اندر جھاڑیاں اگ آئی ہیں۔

bhimgarh fort
قلعہ
author img

By

Published : Jun 28, 2021, 10:49 PM IST

بھیم گڑھ قلعہ جو عام طور پر ریاسی قلعہ کے نام سے جان جاتا ہے۔ یہ قلعہ شہر جموں سے تقریبا 64 کلومیٹر دور شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہ ایک پہاڑ پر ہے جو تقریاً ڈیڑھ سو ميٹر بلند ہے۔

بھیم گڑھ قلعہ

ابتدا میں یہ مٹی سے تعمیر کیا گیا تھا، بعد میں اسے پتھر سے تعمیر کیا گیا۔ قلعہ کی تزئین و آرائش کا اغاز جموں و کشمیر کے گلاب سنگ نے سنہ 1817 میں کیا تھا اور یہ کام 1841 تک جاری رہا۔

قلعہ کا مرکزی اندراج گیٹ بلوا پتھروں سے بنایا گیا ہے، جس میں راجستھانی نقش و نگار نمایاں ہیں۔ قلعہ میں ایک مندر، ایک تالاب اور مختلف سائز کے کمرے ہیں جن میں سے ایک خزانے کا کمرہ بھی ہے۔

مہاراجہ گلاب سنگھ کی موت کے بعد ان کے وارث مہاراجہ رنبیر سنگھ اور مہاراجہ پرتاب سنگ نے بھیم گڑھ قلعہ کو خزانے اور اسلہ خانے کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس کے بعد خزانے کو جموں منتقل کر دیا گیا۔ بھیم گڑھ قلعہ کو 1989 میں ریاستی حکومت کے حکم پر جموں و کشمیر آثار قدیمہ کے حوالے کیا گیا تھا۔

سنہ 1990 میں اس قلعہ کی ویشنو دیوی آستھا بورڈ نے تزئین و آرائش کی تھی۔ اس کے بعد قلعہ کو عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ قلعہ زلزلے اور عدم توجہی کی وجہ سے تباہ ہو گیا ہے، لیکن یہ شہر میں ایک اہم مقام کی حیثیت سے کھڑا ہے جو تاریخ کے احوال اور جموں کی لیڈرشپ کی کہانی پیش کر رہا ہے۔

موجودہ وقت میں اس قلعہ کی حالات انتہائی خستہ ہو چکی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی عدم توجہی اور جموں لیڈرشپ کی لاپرواہی کی وجہ سے قلعہ کے آس پاس اور اندر جھاڑیاں اگ آئی ہیں۔ صورت حال کچھ ایسی ہے کہ انسان قلعہ کے اندر داخل ہونے سے گھبراتا ہے۔ گو کہ بھیم گڑہ قلعہ کی تاریخ اور اس کا خوش حال ماضی جاننے کے بعد دور دور سے سیاح یہاں سیر و تفری کے لیے آتے ہیں، لیکن داخلہ گیٹ کے اندر قدم رکھتے ہی گندگی کے پڑے ہوئے ڈھیر دیکھ کر وہ مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

ریاسی: سڑک کی مرمت میں ناقص میٹریل استعمال کرنے کا الزام

فٹ پات پر کوڑا کرکٹ گندگی کے ڈھیر اور آس پاس اگ آئی جھاڑیوں سے گزارتے ہوئے جب انسان قلعہ کے اندر داخل ہوتا ہے تو ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ کیونکہ قلعہ کے اندر حالات ناگفتہ بہ ہیں۔صفائی ستھرائی کی بات تو دور، یہاں پر آثار قدیمہ کا کوئی اہلکار دکھائی بھی نہیں دیتا۔ جس سے لگتا ہے کہ یہ قلعہ تباہی و بربادی کے دہانے پر ہے۔ اگر اس قلعہ پر توجہ نہ دی گئی تو چند ہی برسوں میں بھیم گڑھ قلعہ قصہ پارینہ بن جائے گا۔

مقامی لوگوں کا انتظامیہ سے مطالبہ ہے کہ اس بیش قیمتی عوامی آثاثہ کو بچانے کے لیے اعلیٰ حکام و افسران خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں تاکہ آنے والی نسلیں اس قیمتی اور تاریخی آثار سے محروم نہ ہو جائیں۔

بھیم گڑھ قلعہ جو عام طور پر ریاسی قلعہ کے نام سے جان جاتا ہے۔ یہ قلعہ شہر جموں سے تقریبا 64 کلومیٹر دور شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہ ایک پہاڑ پر ہے جو تقریاً ڈیڑھ سو ميٹر بلند ہے۔

بھیم گڑھ قلعہ

ابتدا میں یہ مٹی سے تعمیر کیا گیا تھا، بعد میں اسے پتھر سے تعمیر کیا گیا۔ قلعہ کی تزئین و آرائش کا اغاز جموں و کشمیر کے گلاب سنگ نے سنہ 1817 میں کیا تھا اور یہ کام 1841 تک جاری رہا۔

قلعہ کا مرکزی اندراج گیٹ بلوا پتھروں سے بنایا گیا ہے، جس میں راجستھانی نقش و نگار نمایاں ہیں۔ قلعہ میں ایک مندر، ایک تالاب اور مختلف سائز کے کمرے ہیں جن میں سے ایک خزانے کا کمرہ بھی ہے۔

مہاراجہ گلاب سنگھ کی موت کے بعد ان کے وارث مہاراجہ رنبیر سنگھ اور مہاراجہ پرتاب سنگ نے بھیم گڑھ قلعہ کو خزانے اور اسلہ خانے کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس کے بعد خزانے کو جموں منتقل کر دیا گیا۔ بھیم گڑھ قلعہ کو 1989 میں ریاستی حکومت کے حکم پر جموں و کشمیر آثار قدیمہ کے حوالے کیا گیا تھا۔

سنہ 1990 میں اس قلعہ کی ویشنو دیوی آستھا بورڈ نے تزئین و آرائش کی تھی۔ اس کے بعد قلعہ کو عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ قلعہ زلزلے اور عدم توجہی کی وجہ سے تباہ ہو گیا ہے، لیکن یہ شہر میں ایک اہم مقام کی حیثیت سے کھڑا ہے جو تاریخ کے احوال اور جموں کی لیڈرشپ کی کہانی پیش کر رہا ہے۔

موجودہ وقت میں اس قلعہ کی حالات انتہائی خستہ ہو چکی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی عدم توجہی اور جموں لیڈرشپ کی لاپرواہی کی وجہ سے قلعہ کے آس پاس اور اندر جھاڑیاں اگ آئی ہیں۔ صورت حال کچھ ایسی ہے کہ انسان قلعہ کے اندر داخل ہونے سے گھبراتا ہے۔ گو کہ بھیم گڑہ قلعہ کی تاریخ اور اس کا خوش حال ماضی جاننے کے بعد دور دور سے سیاح یہاں سیر و تفری کے لیے آتے ہیں، لیکن داخلہ گیٹ کے اندر قدم رکھتے ہی گندگی کے پڑے ہوئے ڈھیر دیکھ کر وہ مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

ریاسی: سڑک کی مرمت میں ناقص میٹریل استعمال کرنے کا الزام

فٹ پات پر کوڑا کرکٹ گندگی کے ڈھیر اور آس پاس اگ آئی جھاڑیوں سے گزارتے ہوئے جب انسان قلعہ کے اندر داخل ہوتا ہے تو ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ کیونکہ قلعہ کے اندر حالات ناگفتہ بہ ہیں۔صفائی ستھرائی کی بات تو دور، یہاں پر آثار قدیمہ کا کوئی اہلکار دکھائی بھی نہیں دیتا۔ جس سے لگتا ہے کہ یہ قلعہ تباہی و بربادی کے دہانے پر ہے۔ اگر اس قلعہ پر توجہ نہ دی گئی تو چند ہی برسوں میں بھیم گڑھ قلعہ قصہ پارینہ بن جائے گا۔

مقامی لوگوں کا انتظامیہ سے مطالبہ ہے کہ اس بیش قیمتی عوامی آثاثہ کو بچانے کے لیے اعلیٰ حکام و افسران خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں تاکہ آنے والی نسلیں اس قیمتی اور تاریخی آثار سے محروم نہ ہو جائیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.