اردو اساتذہ کے لیے ڈانڈی مارچ نکالنے والے شمشیر خان نے کہا کے ڈانڈی مارچ کو ختم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا بلکہ اسے ملتوی کرنے کا علان کیا گیا ہے۔ شمشیر خان پہلے حکومت سے اس مسلئے پر بات چیت کریں اور جب حکومت کی جانب سے ٹیچروں کےمطالبات کو مان لیے جائیں گے تب اس ڈانڈی مارچ کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا جائے گا۔
شمشیر خان نے مزید معلومات دیتے ہوئے کہا کہ 'ہمارا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ مدرسہ میں پڑھانے والے اساتذہ یعنی پیرا ٹیچر اور دیگر لوگوں کی ملازمت کو مستقل کیا جائے'۔
انہوں نے بتایا کہ اس مطالبہ کو لے کر حکومت کی جانب سے پیرا ٹیچرس سے 31 جنوری تک کا وقت مانگا گیا لیکن اساتذہ کی جانب سے 30 ستمبر تک کا وقت حکومت کو دیا گیا۔
سنہ 2004 کے ایک آرڈر کے مطابق جہاں پر ایک کلاس میں دس بچے اور ایک اسکول میں 40 بچے اردو یا سندھی، گجراتی اور پنجابی زبان کے ہوں گے وہاں پر اسی زبان کے ایک اساتذہ کو مقرر کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ آنگن واڑی کھولنا، اسکول کھولنا اور دیگر مطالبات شامل ہے، ابھی حال ہی میں ریاستی وزیر تعلیم گووند سنگھ ڈوٹاسرا کی جانب سے دیئے گئے بیان کو لے کر شمشیر خان کا کہنا ہے کہ 'وہ ڈوٹاسرا کے بیان سے کسی بھی طرح سے مطمئن نہیں ہیں۔
شمشیر خان نے کہا کہ 'میں خود اردو کا ایک استاد ہوں اور جس طرح سے ڈوٹاسرا بیان بازی کر رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے'۔
اس تعلق سے راجستھان مسلم وقف بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر خانو خان بودھوالی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوے کہا کہ شمشیر خان سے وہ مسلسل اس مسلئے کے حل کے لیے بات چیت کررہے ہیں لیکن چند ایک مدعوں پر ان کا اتفاق نہیں ہو پارہا تھا لیکن اب ان مطالبات کو مان لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح سے بی جے پی کے رہنما بیان بازی کر رہے ہیں انھیں یہ سوچنا چاہیے کہ ان لوگوں نے عوام کے لیے کیا کام کیا ہے اور ان لوگوں نے ہی اردو سندھی اور پنجابی کو ختم کرنے کا کام کیا ہے۔
دراصل پورا معاملہ یہ ہے کہ یکم نومبر کو راجستھان کے ضلع چورو سے سابق رکن اسمبلی بھالو خان کے فرزند شمشیر خان نے ڈانڈی مارچ کا آغاز کیا تھا لیکن 22 روز حکومت نے ایک وفد نے ادئے پور میں ان سے ملاقات کی جس کے بعد انھوں نے اس مارچ کو ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔
اس ڈانڈی مارچ شامل تمام ذمہ داران و اساتذہ ڈانڈی جانے کے بجائے واپس دارالحکومت جئے پہنچ گئے اور یہاں حکومت کے ذمہ داران سے ملاقات کی۔