ریاست راجستھان کا بجٹ گزشتہ روز راجستھان اسمبلی میں پیش کیا گیا اس بجٹ میں گہلوت حکومت نے اقلیتی طبقات کے لیے صرف دو اعلانات کیے ان میں بھی ایک اعلان سنۂ 2014 کا ہی دہرا دیا گیا ہے۔ سب اہم بات یہ ہے کہ اس بجٹ میں مسلم طبقے کے لیے صرف 10 کروڑ روپے ہی مختص کیے گئے ہیں۔
جس کی وجہ مسلم طبقے میں مایوسی تو ہے ہی حکومت کے تئیں غصہ بھی ہے۔ مسلم تنظیموں کے ذمہ داروں کے مطابق 99 فیصد مسلمان کانگریس کو ووٹ دیتے ہیں لیکن پھر بھی بجٹ میں ان کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ہے
اس بجٹ میں حکومت نے ضلع الور میں اقلیتی طبقات کے لیے ایک گرلز ہاسٹل بنانے کا اعلان کیا ہے جبکہ مدرسوں کی جدیدکاری اور اسمارٹ کلاسسز کا اعلان سنۂ 2014 میں ہی اس کی موجودہ حکومت نے کر دیا تھا۔
راجستھان اردو اساتذہ تنظیم کے صدر آمین قائم خانی کا کہنا ہے کہ کے وزیر اعلی اشوک گہلوت نے گزشتہ روز جو بجٹ پیش کیا ہے اس سے اقلیتی طبقہ کافی مایوس ہے۔کیوں کہ اقلیتیوں کے لیے حکومت کی جانب سے کچھ بھی نہیں دیا گیا ہے مدرسہ کی جدیدکاری کے نام پر صرف دس کروڑ روپے کا اعلان ہوا ہے جو ناکافی ہے، اس کے علاوہ حج کمیٹی, وقف بورڈ سمیت دیگر محکموں کے لئے کوئی بھی اعلان نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی گہلوت نے جس طرح سے بجٹ تقریر میں جو بیان دیا ہے وہ مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ ہے اقلیتی طبقے کو نظر انداز کرنا حکومت کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔
قائم خانی کا کہنا ہے کہ اگر اسمبلی میں جلد ہی اقلیتوں کے لیے کوئی بڑا اعلان نہیں ہوتا ہے تو ریاست بھر میں ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوگا بڑا احتجاج ریاست کے الگ الگ ضلع میں دیکھنے کو ملے گا... قائم خانی کا کہنا ہے کہ مدرسہ پیرا ٹیچرس کو جلدی پرماننٹ کرنا چاہیے۔