خواجہ غریب نواز کے عرس کے موقع پردیوان کی سدرات میں ہونے والے میلے میں روایتی قوالی موجود ہیں۔ ای ٹی وی بھارت پر اجمیر شریف کی خصوصی رپورٹ۔
اس سلسلے میں لوگوں کا ماننا ہے کہ مولا کی تعریف میں پڑھے گئے کلام نے آہستہ آہستہ قوالی کی شکل اختیار کرلی۔
وہیں درگاہ کے خادم حاجی پیر سید فاکر کاظمی بتاتے ہیں کہ جب خواجہ غریب نواز اجمیر آئے تھے تو ہر خوشی کے موقع پر راجستھان میں گانے بجانے کا دور تھا۔
اس وقت صوفی کی تعریف مین پڑھے جانے والے کلام کو موسیقی کے آلات کے ساتھ گایا جانے لگا۔تبھی سے قوالی کا سلسلہ آگے بڑھنا شروع ہوا۔
اس سلسلے میں درگاہ کے خادم سید کاظمی نے بتایا کہ قوالی کی تین قسمیں گائی جاتی ہیں۔
جن میں حمد میں خدا کی تعریف کی جاتی ہے ، نعت میں محمد رسول میں اللہ کی تعریف ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قوالی میں گایا ہوا کلام سننے کے بعد سننے والا اپنے خدا کی محبت میں اس قدر ڈوب جاتا ہے کہ اسے خدا کے علاوہ کوئی اور یاد نہیں آتا ہے۔ قوالی عبادت کا ذریعہ ہے جو خدا سے جوڑتا ہے۔
وہیں درگاہ میں عام دنوں میں بھی قوالی ہوتی ہے، لیکن عرس کے دوران محفل خانے میں ہونے والی قوالی روایتی طور پر ہوتی ہے۔
کاظمی وضاحت کرتے ہیں کہ صوفی اور قوالی ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ یعنی اس کی چولی دامن کا ساتھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں قوالی سناؤ، جبکہ لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ قوالی نہیں کلام سنانے کے لیے کہا جاتا ہے۔
ملک و دنیا میں بہت سارے مشہور قوال ہیں جو اپنی گلوکاری کے لئے مشہور ہیں۔ ان تمام قوالوں کی بھی دلی خواہش ہے کہ وہ خواجہ غریب نواز کے مزار پر قوالی گئے۔
یہاں قوال بھی موجود ہیں جو در نسل در نسل قوالی پیش کرتے آ رہے ہیں۔ جنہیں شاہی قوال کہا جاتا ہے۔
شاہی قوال بتاتے ہیں کہ درگاہ میں روایتی قوالی صرف خاص مواقع پر گائے جاتے ہیں۔