ترال (شبیر بٹ): جنوبی کشمیر کے ترال علاقے میں آٹھ برس قبل انہدامی مہم کی زد میں آنے والے دکاندار کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن سرکار و انتظامیہ ان دکانداروں کی حالت زار کو لیکر سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے۔ تقریباً پچاس دکاندار اور ان کی فیملی کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ترال میں انتظامیہ نے آٹھ برس قبل بس اسٹینڈ ترال میں مبینہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پچاس سے زائد دکانوں کو منہدم کر دیا تاکہ بس اسٹینڈ کو جازب نظر بنایا جائے اور عوام کی آمد و رفت کو آسان بنایا جا سکے۔ تاہم اس کارروائی میں متاثر ہوئے دکانداروں کی بازآبادکاری کے حوالے سے آج تک کچھ نہیں کیا گیا۔
متاثرہ دکانداروں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہدامی مہم کے بعد ان کو ترال انتظامیہ کی جانب سے نئی جگہ دکانیں فراہم کرنے اور ان کی بازآبادکاری کے حوالے سے یقین دہانی کرائی گئی، تاہم آٹھ برس بیت گیے انتظامیہ کے وعدے اب تک وفا نہیں ہوئے اور یہ دکاندار آسمان تلے چھاپڑی فروش بن کر زندگی کے شب روز کاٹ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ترال: انہدامی مہم کی پہلی برسی پر دکانداروں کا احتجاج
متاثرہ دکانداروں کے مطابق وہ اور ان کے اہل خانہ فاقہ کشی کے شکار ہو رہے ہیں جب کہ قرضہ جات کو بھی چکانے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اپنی گزارشات کو انہوں نے سرکاری افسران سے لے کر سیاستدانوں تک سبھی کی نوٹس میں لایا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یقین دہانی کے علاوہ انہیں اب تک کچھ حاصل نہیں ہوا۔
ترال میونسپل کمیٹی کے ایک عہدیدار عبدل سلام نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انتظامیہ متاثرہ دکانداروں کی بازآبادکاری کے حوالے سے کام کر رہا ہے اور جلد ہی اس بارے میں کوئی خوشخبری ملے گی
مزید پڑھیں: ترال: انہدامی مہم سے متاثر دکاندار کسمپرسی کے شکار