جلیانوالہ باغ کا قتل عام جو 13 اپریل 1919 کو ہوا تھا، بھارت کی آزادی کی جدوجہد کی مکمل کامیابی تک لے جانے کا ایک اہم واقعہ ہے۔ انگریزوں سے آزادی کی عدم تشدد کی جدوجہد کے اس ایک واقعے میں بہت خون بہایا گیا اور اس نے آزادی کی تحریک کی قیادت کرنے والے قائدین کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آئیے جانتے ہیں جلیان والا باغ قتل عام کی کہانی۔ Indian Independence Struggle
جلیان والا قتل عام سے قبل برٹش انڈیا کی شمال مغربی سرحد پر سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ 1913 کی غدر تحریک اور 1914 کے کاماگاٹا مارو واقعہ نے پنجاب کے لوگوں میں انقلاب کی لہر پیدا کی تھی جب 1914 میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو بہت سے بھارتی فوجی اس میں شامل ہوئے۔ جنگ عظیم کے دوران برٹش آرمی میں شامل ایک لاکھ 95 ہزار بھارتی فوجیوں میں سے 1 لاکھ 10 ہزار فوجیوں کا تعلق پنجاب سے تھا۔ Story of the Indian Independence Movement
پہلی بار ملک سے باہر یوروپ گئے سپاہیوں میں قوم پرستی اور حب الوطنی کا جذبہ ابھر رہا تھا۔ انہوں نے دنیا دیکھی اور ملک کا کیا مطلب ہے، یہ جانا۔ اس دوران برطانوی خوفزدہ تھے کہ اگر یہ فوجی بغاوت پر اُتر آئے تو ان پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا جب کہ حکومت کے پاس اس وقت انہیں روکنے کے لیے کوئی سخت قانون بھی نہیں تھا۔ پنجاب میں بدلتے ہوئے ماحول کو دیکھتے ہوئے انگریز ایک نیا قانون بنانے کے لیے فکرمند تھے جس کے بعد 'رولٹ ایکٹ' کا مسودہ تیار کیا گیا۔
رولٹ ایکٹ کا مسودہ پیش ہوا تو اس قانون کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ مقامی صحافت نے اس پر تفصیل سے بحث شروع کی جس کے بعد سخت قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ پنجاب کے کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ امرتسر میں بھی شیڈول کے مطابق احتجاج کا سلسلہ جاری تھا۔ ان تمام احتجاج کے باوجود رولٹ ایکٹ کو 18 مارچ 1919 کو منظوری دے دی گئی۔ اس تعلق سے پروفیسر پرشانت گورو نے بتایا کہ ان احتجاجی مظاہروں میں دو رہنما ڈاکٹر سیف الدین کچلے اور ڈاکٹر ستیہ پال ملک نمایاں تھے۔ مہاتما گاندھی کو بھی مظاہروں میں شرکت کی دعوت دی گئی جب کہ وہ 2 اپریل 1919 کو پنجاب آنے والے تھے لیکن انہیں پَل وَل میں ہی روک کر واپس بھیج دیا گیا، جس کے بعد برطانوی حکومت نے ان دونوں رہنماؤں کو پھنسانے کا فیصلہ کیا جو مظاہروں کی قیادت کر رہے تھے۔
- یہ بھی پڑھیں: 75YEARS OF INDEPENDENCE: جلیانوالہ باغ قتل عام کا انتقام لینے والے رام محمد سنگھ آزاد
امرتسر کے ضلعی کمشنر، میلز ارونگ نے 10 اپریل 1919 کو ڈاکٹر سیف الدین کچلے اور ڈاکٹر ستیہ پال ملک کو اپنے دفتر بلا کر انہیں غداری کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا۔ دونوں رہنماؤں کو امرتسر سے منتقل کر کے دھرمشالا میں نظر بند کر دیا۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلے اور ڈاکٹر ستیہ پال ملک کی گرفتاری کے بعد امرتسر میں کشیدگی بڑھ گئی۔ کاٹرا جیمل سنگھ، ہال بازار اور اچاپل کے علاقے میں 20 ہزار سے زائد لوگوں نے احتجاج کیا۔ اس دوران ایک یا دو پرتشدد واقعات بھی پیش آئے جس کے بعد پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل او ڈائر نے صورتحال کو سنبھالنے کے لیے جالندھر کنٹونمنٹ بورڈ سے آرمی آفیسر جنرل آر ڈائر کو بلایا تھا۔ جنرل ڈائر، بھارتیوں سے متعلق سخت نظریہ رکھتا تھا۔
جلیانوالہ باغ قتل عام سے ایک روز قبل، جنرل ڈائر نے مسلح فوج کے ساتھ امرتسر میں مارچ کر کے کرفیو کا اعلان کیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر مقامی لوگوں کو کرفیو کے بارے میں پتہ نہیں چلا۔ کرفیو سے لاعلم، کچھ لوگ جلیانوالہ باغ میں ایک میٹنگ کے لیے پہنچے۔ اس کے علاوہ بیساکھی کی مناسبت سے متعدد لوگ خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دور دراز علاقوں سے سری ہرمندر صاحب پہنچے تھے وہیں گوبند گڑھ پشو میلے کے لیے بھی کئی تاجر وہاں جمع ہوئے تھے۔ جلیان والا باغ میں احتجاجی جلسے کی تیاریاں شروع کی گئیں اور مائیکرو فون بھی لگائے گئے تو کرفیو سے لاعلم لوگ جمع ہوگئے۔ اجلاس کا آغاز تقریباً 4.30 بجے شروع ہونا تھا تاہم بھاری بھیڑ کو دیکھتے ہوئے سہ پہر 3 بجے ہی جلسہ شروع ہوگیا۔ اس دوران جنرل ڈائر تمام تفصیلات سے واقفیت حاصل کررہا تھا۔
تقریباً پانچ یا سوا پانچ بجے جنرل ڈائر 25 فوجیوں کے 4 دستوں کے ہمراہ جلیان والا باغ پہنچا۔ گورکھا رجمنٹ اور افغان رجمنٹ کے 50 سپاہیوں کے ساتھ جنرل ڈائر باغ کے اندر داخل ہوا اور فائرنگ کرنے کا حکم دیا۔ پروفیسر پرشانت گورو نے بتایا کہ ٹھیک 5.30 بجے فائرنگ کی گئی جب کہ اس سے قبل نہ کوئی انتباہ دیا گیا، نہ لوگوں کو منتشر کرنے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی ہوائی فائرنگ کی گئی۔ اچانک فائرنگ شروع کردی گئی اور راست طور پر لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران 303 کیلیبر کے 1650 راؤنڈ فائر کیے گئے۔
فائرنگ کے بعد جب کچھ لوگوں کو زخمی ہوتا اور خون میں لت پت دیکھا گیا تو بھگدڑ مچ گئی۔ لوگ گولیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے بھاگنے لگے۔ گراونڈ میں واقع ایک کنواں لاشوں سے بھر گیا تھا۔ ابتدائی طور پر جنرل ڈائر نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ 200 افراد ہلاک ہوگئے جب کہ وہاں 5 ہزار افراد موجود تھے۔ پنجاب کے چیف سکریٹری جے پی تھامسن لکھتے ہیں کہ 291 افراد ہلاک ہوئے جن میں 211 افراد کا تعلق امرتسر شہر سے تھا۔ ہنٹر کمیٹی نے بتایا تھا اس قتل عام میں 379 افراد ہلاک ہوئے۔ 275 افراد گولیوں سے مرے جب کہ 104 لاشیں کنویں سے برآمد کی گئی۔
مدن موہن مالویہ کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی کے مطابق 1000 لوگ اس سانحہ میں مارے گئے جب کہ کانگریس انکوائری کمیٹی نے 1200 افراد ہلاک اور دیگر 2600 زخمی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ وہیں سوامی شردھانند بھی جلیان والا باغ گئے اور انہوں نے کہا کہ سانحہ میں 1500 لوگ مارے گئے۔ مجموعی طور پر اعداد و شمار کے مطابق قتل عام میں ہزار تا دیڑھ ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ برطانوی حکومت نے مرنے والوں کی تعداد کو بار بار بڑھاکر 379 بتایا تھا تاہم اس چیز کو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ سانحہ میں ایک ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
بھارتیوں میں پائے جانے والے غم و غصے کو دیکھتے ہوئے انگریز حکومت نے جنرل ڈائر کو معطل کردیا جس کے بعد وہ برطانیہ واپس چلے گئے تھے۔ شہید اُدھم سنگھ نے 13 مارچ 1940 کو لندن میں مائیکل او ڈائر کو گولی مار کر جلیان والہ باغ قتل عام کا بدلہ لیا۔ 1961 میں حکومت ہند کی جانب سے شہید اُدھم سنگھ کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک یادگار تعمیر کی گئی جس کا افتتاح آزاد بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے کیا تھا۔
نوٹ: گزشتہ برس (3 ستمبر 2021) کو یہ مضمون شائع کیا جا چکا ہے تاہم آج جلیان والا باغ قتل عام کی برسی ہے اسی لیے موقع کی مناسبت سے اسے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔