بیروت: صرف ایک ہفتے کے دوران، لبنان میں شدید اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں گروپ کے سربراہ حسن نصراللہ سمیت طاقتور حزب اللہ عسکریت پسند گروپ کے سات اعلیٰ سطحی کمانڈر اور اہلکار ہلاک ہو گئے۔
اسرائیلی فوج کے بڑی فوجی اور انٹیلی جنس کامیابیوں کے جشن نے لبنان اور مشرق وسطیٰ کے بیشتر حصے کو صدمے میں ڈال دیا۔ حزب اللہ نے غزہ کی پٹی میں اپنے اتحادی حماس کی حمایت کے لیے ایک محاذ کھول دیا تھا۔
لبنان میں اسرائیل کے حالیہ حملے اور حسن نصراللہ کا قتل مشرق وسطیٰ میں اس بار اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ میں نمایاں اضافہ کر سکتا ہے۔
ایران کی حمایت یافتہ لبنانی تنظیم نے اپنے ایسے ارکان کو کھو دیا ہے جو 1980 کی دہائی کے اوائل میں حزب اللہ کے قیام کے بعد سے تنظیم کا حصہ تھے۔
اسرائیلی حملوں میں نشانہ بننے والے سب سے اہم اور سرفہرست نصراللہ تھے، جو جنوبی بیروت میں صیہونی فوج کے ایک طاقتور فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔
حسن نصراللہ:
1992 سے، نصراللہ نے اسرائیل کے ساتھ کئی جنگوں میں تنظیم کی قیادت کی، اور تنظیم کو لبنان کی سیاست میں طاقتور کھلاڑی میں تبدیل کر دیا۔ حزب اللہ لبنان کے سیاسی میدان میں داخل ہوئی اور اس نے علاقائی تنازعات کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا، جس نے اسے ملک کی سب سے طاقتور نیم فوجی قوت بنا دیا۔ 2011 میں شام کی بغاوت جب خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی اس وقت حزب اللہ نے شام کے صدر بشار اسد کو اقتدار میں بنائے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نصر اللہ کی زیر نگرانی تنظیم نے عراق اور یمن میں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروپوں کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں بھی مدد کی۔
نصراللہ لبنان میں ایک تفرقہ انگیز شخصیت ہیں، 2000 میں جنوبی لبنان پر اسرائیل کے قبضے کو ختم کرنے پر وہ اپنے حامیوں کے نظروں میں ہیرو بن گئے۔
نبیل کاؤک:
کاؤک کو اسرائیل نے ہفتے کے روز ایک فضائی حملے میں ہلاک کر دیا۔ نبیل کاؤک حزب اللہ کی مرکزی کونسل کے نائب سربراہ تھے۔ انھوں نے 1980 کی دہائی میں اپنے ابتدائی دنوں میں تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ کاؤک نے 1995 سے لے کر 2010 تک جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے فوجی کمانڈر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ انھوں نے متعدد مرتبہ میڈیا اور حامیوں کے سامنے تقریریں کیں، جن میں حزب اللہ کے ہلاک ہونے والے جنگجؤں کے جنازے بھی شامل تھے۔ نبیل کاؤک کو حسن نصراللہ کے ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
ابراہیم عقیل:
ابراہیم عقیل حزب اللہ کے ایک اعلیٰ کمانڈر تھے اور انھوں نے حزب اللہ کی ایلیٹ رضوان فورسز کی قیادت کی۔ رضوان فورسز کو اسرائیل لبنان کے ساتھ اپنی سرحد سے مزید دور دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابراہیم عقیل حزب اللہ کی اعلیٰ ترین جہاد کونسل کے رکن بھی تھے۔ ابراہیم عقیل امریکہ کی مطلوبہ فہرست میں شامل تھے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ عقیل اس گروپ کا حصہ تھے جس نے 1983 میں بیروت میں امریکی سفارت خانے پر بمباری کی اور جرمن اور امریکیوں کو یرغمال بنانے کا منصوبہ بنایا۔
احمد وہبی:
احمد وہبی حزب اللہ کے ایلیٹ رضوان فورسز کا کمانڈر تھا اور اس نے تقریباً دو دہائیوں قبل حزب اللہ کی تشکیل کے بعد سے اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ عقیل کے ساتھ بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے میں ایک فضائی حملے میں مارا گیا۔
علی کرکی:
حزب اللہ کے جنوبی محاذ کی قیادت کرنے والے علی کرکی نے جاری تنازعہ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ امریکہ بھی علی کرکی کو حزب اللہ کی قیادت میں ایک اہم شخصیت کے طور پر بیان کرتا ہے۔ نصراللہ کے ساتھ ہلاک ہونے والے کرکی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔
محمد سورور:
محمد سورور حزب اللہ کے ڈرون یونٹ کے سربراہ تھے۔ ڈرون کو اسرائیل کے ساتھ موجودہ تنازع میں پہلی بار استعمال کیا گیا۔ محمد سورور کی قیادت میں، حزب اللہ نے اسرائیل کے اندر تک پہنچنے والے اور جاسوسی کرنے والے ڈرون لانچ کیے۔ یہ ڈرون اسرائیل کے دفاعی نظام میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ڈرون کے استعمال کے بعد حزب اللہ مزید مضبوط ہوئی کیونکہ اس سے پہلے تنظیم کا دارومدار صرف راکٹوں اور میزائلوں پر تھا۔
ابراہیم کوبیسی:
کوبیسی حزب اللہ کے میزائل یونٹ کی سربراہ تھے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ کوبیسی نے 2000 میں شمالی سرحد پر تین اسرائیلی فوجیوں کے اغوا اور قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔ ان اسرائیلی فوجیوں کی لاشیں چار سال بعد حزب اللہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے دوران واپس کی گئیں تھیں۔
دیگر سینئر کمانڈر جو اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہوئے:
اسرائیل نے غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے حزب اللہ کے اعلیٰ کمانڈروں کو نشانہ بنایا تھا جس میں خاص طور پر فواد شکور کا نام آتا ہے جنھیں ایران میں ہونے والے ایک دھماکے سے چند گھنٹے قبل جولائی کے آخر میں نشانہ بنایا تھا۔ حزب اللہ نے دھماکے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا۔ تہران میں کیے گئے اس دھماکے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ امریکہ نے فواد شکور پر 1983 میں بیروت میں ہونے والے بم دھماکے کا الزام لگایا تھا جس میں 241 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
حزب اللہ کے دیگر اعلیٰ عہدیدار جو اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہوئے ان میں تنظیم کے اہم اکائیوں کے رہنما، جواد تاویل، طالب عبداللہ، اور محمد ناصر کے نام قابل ذکر ہیں، جو کئی دہائیوں سے حزب اللہ کی عسکری سرگرمیوں کے اہم رکن بن چکے تھے۔
حزب اللہ کے وہ اعلیٰ عہدیدار جو ابھی حیات ہیں:
حسن نصراللہ کے سیکنڈ ان کمانڈ نعیم قاسم حزب اللہ کے سب سے سینئر رکن ہیں۔ قاسم 1991 سے حزب اللہ کے نائب رہنما ہیں، اور تنظیم کے بانی ارکان میں شامل ہیں۔ کئی مواقع پر، مقامی نیوز نیٹ ورکس نے فوری طور پر یہ اندازہ لگایا تھا کہ جنوبی بیروت میں اسرائیلی حملے نے قاسم کو نشانہ بنایا ہو گا۔
قاسم گروپ کے واحد اعلیٰ عہدیدار ہیں جو گروپ کے اعلیٰ سیاسی اور سیکورٹی معاملات سمیت مختلف پہلوؤں میں ملوث دکھائی دیتے ہیں جن میں لبنان میں شیعہ مسلم کمیونٹی کے لیے حزب اللہ کے مذہبی اور خیراتی اقدامات سے متعلق معاملات میں بھی شامل ہیں۔
حزب اللہ کی مرکزی کونسل کے سربراہ ہاشم صفی الدین کے حسن نصر اللہ کے جانشین ہو سکتے ہیں۔ صفی الدین حسن نصراللہ کے کزن ہیں، اور ان کے بیٹے کی شادی ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی بیٹی سے ہوئی ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی 2020 میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ نصر اللہ کی طرح صفی الدین نے بھی حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی۔
ہاشم صفی الدین کے علاوہ طلال حمیح اور ابو علی ردا حزب اللہ کے دو باقی رہ جانے والے اعلیٰ کمانڈر ہیں جو زندہ ہیں اور بظاہر اسرائیل کے نشانے پر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: