ضلع پلوامہ اگرچہ میواجات، پھل سبزیاں اور دودھ کی پیداوار کے لیے کافی مشہور ہے۔ وہیں، یہ ضلع ادویات میں استعمال کیے جانے والے پودوں سے بھی مالا مال ہے۔
lavender (یعنی حُزام، ضرم یا اسطو خودوس ) جموں و کشمیر میں پائے جانے والے ادویاتی پودوں کی ملکہ کہلاتی ہے، ضلع پلوامہ میں تقریباً 12 سو سے زائد کنال اراضی پر لیونڈر کی کاشت کی جاتی ہے۔
ضلع کے بونیئر علاقے میں ایک سرکاری فارم بھی چلایا جا رہا ہے جہاں پر لیونڈر، روزمیری، گلاب جیسے پھول اگائے جاتے ہیں۔ اس فارم میں دو ہزار سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ اس فارم سے سالانہ 50 لاکھ تک آمدنی ہوتی ہے۔ یہ فارم CSIR مشن کے تحت انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اینٹی گریٹیڈ میڈیسن (IIIM) کی جانب سے چلایا جا رہا ہے۔
اس فارم میں میڈیکل اور ایرومیٹک پودوں پر تحقیق بھی کی جا رہی ہے۔ وہیں، کسانوں تک یہ پودے پہنچانے کے لیے فارمز میں ان پودوں کی کاشت کی جاتی ہے اور انہیں چھوٹے کسانوں تک پہنچایا بھی جاتا ہے۔
واضح رہے کہ پوری دنیا میں لیونڈر کے صابن، کاسمیٹک، تیل اور دیگر اشیا بے تحاشا استعمال ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بیکری اور کھانے کی اشیا میں ذائقہ بڑھانے کے لیے بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیونڈر کے تیل سے مختلف اقسام کی مصنوعات تیار کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا تو یہ ایک بہت بڑی انڈسٹری بن سکتی ہے جس سے بے شمار لوگوں کو روز گار مل سکتا ہے۔
لیونڈر (حزام) کے پھولوں اور تیل کی خرید و فروخت نیشنل اور انٹرنیشنل مارکٹ میں ہوتی ہے اور اس کی اچھی قیمت ملتی ہے۔ لیونڈر کی کاشت سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ قابل ذکر ہے کہ لیونڈر ایک قسم کی جڑی بوٹی ہے۔ لیونڈر کے پھولوں سے تیل نکالا جاتا ہے جو کاسمیٹکس کے علاوہ دواؤں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
لیونڈر کو فنگل انفیکشن، بالوں کے جھڑنے اور زخموں کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس جڑی بوٹی کو جِلد اور خوبصورتی کے لیے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور عام طور پر خوشبوؤں اور شیمپو میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ہاضمہ کی دشواریوں میں مدد کرنے کے علاوہ لیونڈر کا استعمال سر درد، موچ، دانت میں درد اور زخم سے درد کو دور کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
واضح رہے لیونڈر پھولوں کو پوری طرح کھِلنے میں 8 سے 12 ماہ لگ جاتے ہیں اور کشتواڑ اور ڈوڈہ کے علاقے ان کی کاشت کے لیے بہترین ہیں کیونکہ یہاں موسم سرد رہتا ہے جو ان کے لئے موزوں ہوتا ہے۔ لیونڈر یورپ سے درآمد کیا جاتا ہے اور جموں و کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں اگایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے سینئر سنٹیسٹ انچارج فیلڈ اسٹیشن بونرہ پلوامہ ڈاکٹر شاہد رسول نے بات کرتے ہوئے کہا کہ لیونڈر کی کاشت کے لیے ادویات کا استعمال نہیں ہوتا۔ باقی لوگوں کو بھی روایتی باغبانی سے ہٹ کر دیگر منافہ بخش کاروبار کی طرف توجہ دینی چاہیے جس میں لیونڈر کی کاشت سب سے بہتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسان اگر اپنے باغات میں لیونڈر جیسے پودے لگائیں گے تو ان کی آمدنی میں دو گنا اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بغیر کسی خرچے کے اگائے جا سکتے ہیں۔ وہیں، لیونڈر کی کاشت کے حوالے سے کسانوں کو جانکاری بھی دی جاتی ہے تاکہ ان کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے۔