یہ علاقہ ضلع پلوامہ کے مین ٹاون ترال سے محض دو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
درجنوں نفوس پر مشتمل یہ چھوٹی آبادی بنیادی سہولیات جیسے رابطہ سڑک، بجلی، پانی سکول اور دیگر مراعات سے محروم ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق آج کے اس جدید دور میں بھی وہ گھپ اندھیرے میں زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں یہ معلوم نہیں کہ بجلی کیا ہوتی ہے۔
مقامی لوگوں نے 'تنگ آمد بہ جنگ آمد' کے مصداق سڑکوں پر نکل خاموش احتجاج کیا اور انتظامیہ تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی۔ ایک مقامی شہری فاروق احمد نے ای ٹی وی بھارت سے بات کی اور کہا کہ ہمارا گاؤں ٹاون کے بالکل نزدیک ہونے کے باوجود ہر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گاؤں میں نہ ہی بجلی ہے نہ ہی پانی اور نہ ہی سڑک۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارا گاوں سرکاری نقشے پر موجود ہی نہیں ہے۔
فاروق احمد کے مطابق وہ گزشتہ دس سال سے ان معاملات کو لیکر حکام کے پاس گیے لیکن بے سود۔ انہوں نے بتایا کہ سرکار بلند بانگ دعوے تو کرتی ہے لیکن زمینی سطح پر وہ دعوے کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔
ایک اور شہری شوکت نے بتایا کہ ترال کے دور افتادہ گاوں میں سڑکیں بنائی گی لیکن ہماری بستی کو نطر اندازہ کیا گیا ہے اور ہماری فایلیں سرکاری دفاتر میں دھول چاٹ رہی ہے۔
ایک خاتون رخسانہ نے بتایا کہ دردزہ میں مبتلا خواتین کو بھی ہسپتال چارپائی پر لے جانا پڑتا ہے جو کہ کسی مصیبت سے کم نہیں ہے انہوں نے مانگ کی کہ بستی میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے
ای ٹی وی بھارت نے جب اس بارے میں ایڈشنل ڈپٹی کمشنر ترال شبیر احمد رینہ سے بات کی تو انہوں نے یقین دلایا کہ اس بستی میں تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی کو جلد از جلد یقینی بنایا جائے گا۔
واضح رہے کہ مقامی لوگوں کی جانب سے انتظامیہ کی نوٹس میں اپنے مسائل لانے کے باوجود ضلع انتظامیہ اس بستی پر مہربان نہیں ہوئی ہے اور کب مہربان ہوگی معلوم نہیں۔