انتطامیہ کی جانب سے مویشی پروری کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے متعدد اعلانات تو کیے جاتے ہیں لیکن زمینی سطح پر اس صنعت کو درپیش مسائل کا تدارک کرنے سے متعلق سرکاری دعوے کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔ گذشتہ کئی دنوں سے ترال کے بالائی علاقوں میں مویشیوں کے اندر منہ کھر اور دیگر بیماریاں پھوٹ پڑنے سے تقریباً ایک درجن مویشی ہلاک ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مویشیوں کے مرنے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ بڑی تعداد میں مویشی اس بیماری سے متاثر ہو رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ متعلقہ حکام خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ تاحال کسی بھی ٹیم نے متاثروہ علاقوں کا دورہ کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی ہے۔ یہ بیماری بنگہ ڈار، درگڈ، حاجن، ستورہ، نارستان، سیموہ اور رٹھسونہ علاقوں میں پھیل گئی ہے۔
بنگہ ڈار کے رہنے والے میر ولی نے بتایا 'منہ کھر کی اس بیماری سے میری گائے ہلاک ہو گئی ہے اور اب میں جاؤں تو جاؤں کہاں۔ میں نے بڑی مشقت سے کوڑی کوڑی جمع کر کے یہ گائے خریدی تھی'۔
وہیں ایک مقامی عالم دین کے مطابق بالائی علاقوں میں یہ بیماری پھوٹ پڑنے سے لوگوں میں تشویش پائی جا رہی ہے اور بڑی بد قسمتی کی بات یہ بھی ہے کہ محکمہ انیمل ہسبینڈری خواب غفلت میں ہے۔
- یہ بھی پڑھیے:
مغل روڈ عام لوگوں کے لیے بحال
ایک مقامی خاتون نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا 'میری گائے بھی بیماری سے مر گئی اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اب تک علاقے میں بیماری پھوٹ پڑنے کے بعد بھی کوئی دوا علاج نہیں کیا گیا'۔
اس حوالے سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے انیمل ہسبنڈری کے متعلقہ حکام سے بات کرنے کی کوشش کی تاہم انھوں نے کیمرہ کے سامنے آنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بعد یہ معاملہ ایڈشنل ڈپٹی کمشنر ترال شبیر احمد رینہ کی نوٹس میں لایا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں رپورٹ طلب کریں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے مویشی بیماری کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے، ان کے نقصان کی بھرپائی کون کرے گا؟