ضلع پلوامہ میں نیشنل کانفرنس کے صدر دفتر پر کارکنان کا ایک اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ، علی محمد ساگر، ناصر اسلم وانی کے علاوہ پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ ہمارے چہروں سے ہماری مسکراہٹ چھیننے کے ساتھ ساتھ ہمارے اعتماد کو بھی توڑا گیا۔ دنیا کو بتایا گیا کہ جموں و کشمیر کے لوگ 5 اگست 2019 کے فیصلے کے ساتھ ہیں کیونکہ ان کا مستقبل روشن ہے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے، جموں و کشمیر کے لوگوں کو ترقی کے نام پر دھوکہ دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے بعد جموں و کشمیر کی ترقی ہوگی۔ یہاں بڑے بڑے کارخانے قائم کیے جائیں گے۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے وسائل پیدا کیے جائیں گے تاہم آج تک ایک اسکول بھی نہیں قائم کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں پہلے ان کو پورا کیا جائے اور جموں و کشمیر کے لوگوں دفعہ 370 کو منسوخ کرنے سے خوش نہیں ہیں۔ جب تک جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس نہیں دیا جائے گا جموں کشمیر نیشنل کانفرنس تب تک اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علی محمد ساگر نے کہا کہ لوگوں نے پی ڈی پی پر اعتماد ظاہر کرکے انہیں انتخابات میں اکثریت سے جیت دلائی تھی اور پی ڈی پی نے کہا تھا کہ وہ بی جے پی کو جموں و کشمیر سے دور رکھیں گے۔ تاہم وادی میں اکثریت سے جیتنے کے باوجود بھی انہوں نے بی جے پی کے ساتھ مل کر سرکار بنائی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی نے انہیں بلا شرط حمایت دینے کی بات کہی تھی۔ تاہم انہوں نے اس کے باوجود بی جے پی کو ہی منتخب کیا جس کا خمیازہ آج پوری وادی کے لوگ بھگت رہے ہیں۔