گزشتہ دنوں جنوبی کشمیر کے اونتی پورہ علاقے میں عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان ہونے والے تصادم میں خودسپردگی کرنے والے عسکری نوجوان کے اہل خانہ کو اپنے بیٹے کے زندہ ہونے پر یقین نہیں آ رہا ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات ایک خصوصی انٹرویو میں خود سپردگی کرنے والے عسکریت پسند ثاقب کے والد محمد اکبر نے بتایا کہ انہیں اپنے بیٹے کے زندہ ہونے پر یقین نہیں آ رہا ہے اور یہ سب اللہ پاک کا کرم ہے کہ میرا بیٹا تصادم کے دوران زندہ نکلنے میں کامیاب رہا جس کے لیے وہ پولیس اور سیکورٹی فورسز کے شکر گزار ہیں۔
آج انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار کی جانب سے دو ماہ کے دوران نو عسکری جوانوں کی طرف سرینڈر کرنے کے سوال پر محمد اکبر نے بتایا کہ یہ اچھی بات ہے کہ اس طرح کی پہل سے بچوں کی زندگی بچائی جا سکتی ہے اور ان کی زندگی پٹری پر لانے میں مدد مل سکتی ہے۔
اپنے بیٹے کے عسکری سفر پر بات کرتے ہوئے محمد اکبر نے بتایا کہ ان کا بیٹا چندی گڑھ میں بی ٹیک کی پڑھائی کر رہا تھا اور امسال عالمی وباء کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد وہ گھر آیا جس دوران اس کی صحت بگڑ گئی۔ اس کے بعد وہ اسے ترال میں ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ لڑکے کی تشخیص کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ اس کے گردوں میں پتھری ہے۔ تب سے اس کا علاج جاری تھا۔
محمد اکبر کے مطابق 25 ستمبر کو وہ شالی کاٹ رہے تھے اور ثاقب علاج کی غرض سے گھر سے نکلا اور جب وہ دیر شام تک واپس نہیں آیا تو انھوں نے اس کا نمبر ملایا لیکن فون سوئچ آف آ رہا تھا اور تب سے لے کر نورپورہ میں ہوئے تصادم کے دوران ان کا بیٹا ایک ماہ تک عسکریت پسندوں کے ساتھ رہا، لیکن گھر والوں کو اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: فٹنس میں وراٹ کوہلی کو پیچھے چھوڑنے والا کھلاڑی
واضح رہے کہ 26 اکتوبر کو ہونے والی جھڑپ میں چرسو اونتی پورہ کا ایک عسکریت پسند ہلاک ہوا تھا جبکہ پولیس اور سیکورٹی فورسز کی کال پر لبیک کہتے ہوئے گلشن پورہ ترال کے رہنے والے ثاقب نے خود سپردگی کردی تھی، جس کے بعد اونتی پورہ پولیس کی جانب سے ایک ویڈیو بھی جاری کیا گیا تھا۔