اگر جائزہ لیا جائے تو ویسے تو ملک بھر میں ایسا ہوا ہے لیکن مہاراشٹر میں کچھ زیادہ اثر ہوا ہے جبکہ یہاں مسلم لیڈرشپ بھی ابھر کر آئی ہے اور ان کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے بُرے کی سمجھ بھی رکھتی ہے۔ ان کی سرگرمیوں اور خدمات سے انہیں عوامی مقبولیت بھی حاصل ہورہی ہے۔
مہاراشٹر کے سب سے کم عمر وزیر و شیوسینا رہنما آدتیہ ٹھاکرے اور این سی پی کے سربراہ شردپوار کی بیٹی سپریا سُلے کا نام سرفہرست ہے جو کہ حال کے دنوں میں عوامی رہنما بن چکے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر انتخابی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ حالیہ دنوں میں کئی نئے اور نوجوان چہرے سیاست کے میدان میں سرگرم نظر آرہے ہیں ان میں (این سی پی)کی رکن پارلیمان سپریا سُلے قابل ذکر ہیں۔
حالانکہ انہوں نے سیاست میں کافی پہلے قدم رکھا ہے لیکن حال کے دنوں میں لوک سبھا کے ایوان میں اپنی تقریروں اور مدلل بحث میں حصہ لیکر لیڈر شپ کی صلاحیت کو اجاگر کیا ہے۔
سپریاسُلے نے حال میں مہاراشٹرکی سیاست اور اسمبلی الیکشن کے بعد پیدا صورتحال اور نئی حکومت کی تشکیل میں اہم رول اداکیا ہے۔وہ این سی پی کے سربراہ شردپوار کی اکلوتی بیٹی ہیں اور لوک سبھا کے ایوان میں حال میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی شخصیت بن گئی ہیں۔
سپریا سُلے بارہ متی سے تیسری مرتبہ لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئی ہیں وہ ایک بار راجیہ سبھا میں بھی رہ چکی ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق انہوں نے مئی اور دسمبر 2019 کے درمیان ایوان میں 167سوالات کیے اور 75 بار مختلف بحث میں شریک بھی ہوئی ہیں۔
سُلے نے حکومت سے متعدد مسائل اور معاملات پر مسلسل سوالات کیے ہیں ان میں صحت عامہ، خواتین واطفال، اقلیتوں کے مسائل اور ماحولیاتی معاملے بھی شامل ہیں۔
ان کے بعد بی جے پی کے سبھاش بھامرے اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہیں جنہوں نے سُلے کے بعد سب سے زیادہ یعنی 161 سوالات کیے ہیں، بھامرے پیشہ سے ڈاکٹر ہیں اور دھولیہ،مہاراشٹر سے دوسری مرتبہ لوک سبھا پہنچے ہیں۔
سپریا سُلے ایوان میں وقفہ سوالات کے دوران سرگرم رہتی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ایک رکن پارلیمان کی حیثیت سے یہ ان کا فرض ہے کہ وہ حکومت سے عوامی مسائل پر سوالات کریں اور انہوں نے اپنا فرض بخوبی اداکرنے کی کوشش کی ہے۔
ماضی میں لوک سبھا میں سپریا سُلے نے طلاق ثلاثہ بل پر سیر حاصل کی ہے اور ان کی مدلل بحث کے سامنے بی جے پی اراکین کی فقرے بازی ٹک نہ سکی، بلکہ مختلف موقعوں پر انہوں نے بحث کے دوران لقمہ دینے والے اراکین کو ان کے انداز میں جواب بھی دیا۔
اسی طرح جموں کشمیر سے 370 ہٹائے جانے کے معاملات پر بھی ایوان میں انہوں نے اپنے خیالات عمدگی سے پیش کیے اور واضح کیا کہ کشمیری عوام کو ان کے حقوق سے محروم نہ کیا جائے بلکہ ہر طرح سے انہیں گلے لگایا جائے۔
مہاراشٹر میں ایک اور نوجوان آدتیہ ٹھاکرے آج کل سرخیوں میں ہیں اور انہیں کم عمر وزیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا ہے حالانکہ وہ شیوسینا کے بانی بال ٹھاکرے کے پوتے اور وزیراعلیٰ ادھوٹھاکرے کے بیٹے ہیں لیکن آدتیہ، ٹھاکرے خاندان کے پہلے ایسے رکن ہیں جنہوں نے انتخابی سیاست میں حصہ لیا اور ممبئی کے ورلی اسمبلی حلقہ سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔
آدتیہ ٹھاکرے ایک تعلیم یافہ سیاست داں ہیں، انہوں نے اپنی اسکول کی تعلیم بامبے اسکوٹش اسکول میں مکمل کی بعد ازاں انہوں نے بی اے کے لیے سینٹ زیوئرس کالج، ممبئی میں داخلہ لیا اور مشہور کے سی کالج سے پوسٹ گریجویشن لا کالج سے کیا اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
غالباً سنہ 2007 میں انہوں نے اپنی شاعری کا مجموعہ مائی تھوٹز ان وائٹ اینڈ بلیک(میرے خیالات سیاہ و سفید میں) شائع کی۔
اگلے سال انہوں نے نغمہ نگاری میں طب آزمائی کی اور ایک البم بنام 'امید' جاری کیا۔ زمانہ طالب علمی میں وہ طلبأ یونین کی سرگرمیوں میں شریک ہوگئے۔ سنہ 2010 میں ممبئی یونیورسٹی کی قابل مطالعہ کتابوں کی فہرست میں روہنٹن مستری کی کتاب 'سچ اے لانگ جرنی کورس' میں شامل کی گئی تھی جس میں مصنف نے ٹھاکرے خاندان اور مراٹھی لوگوں کے خلاف جم کر لکھا ہے اور گھٹیا زبان کا استعمال کیا گیا تھا۔
مصنف نے مراٹھیوں کو اپنی کتاب میں خوب لتاڑا ہے ممبئی یونیورسٹی کی ریڈنگ لسٹ میں اس کتاب کی شمولیت کے خلاف آدتیہ ٹھاکرے نے زبردست احتجاج کیا اور کتاب کو نذر آتش کر دیا تب ہی سے انہیں شہرت حاصل ہوئی اور آج وہ مہاراشٹر کی کابینہ میں شامل کیے گئے ہیں۔
اکتوبر 2019ءمیں انہوں نے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں ورلی اسمبلی حلقہ سے سیاست میں قسمت آزمائی کی۔
مہاراشٹر میں شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان نااتفاقی کے نتیجے میں کانگریس اور این سی پی کے ساتھ مہاوکاس اگھاڑی (ایم وی اے) کی تشکیل اور حکومت سازی کے لیے انہوں نے بھی کافی محنت کی تھی۔
ریاست میں سہ رخی محاذ کی حکومت بن گئی ہے جن کے نظریات اور اصول مختلف ہیں ،لیکن حال کے دنوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ آدتیہ ٹھاکرے کی سربراہی میں شیوسینا نے ایک نئی راہ اپنائی ہے۔
اسی طرح۔کانگریس اور این سی پی میں بھی کئی نئے اور نوجوان لیڈر اپنی کامیابی درج کرا چکے ہیں ،آنجہانی ولاس راؤ کے صاحبزادے امیت دیشمکھ بھی شامل ہیں ،تیسری مرتبہ ملاڈ اسمبلی حلقہ سے کامیاب ہوئے اسلم شیخ کو بھی ادھو ٹھاکرے کی کابینہ میں داخلہ مل گیا ہے جنھیں فائر برانڈ لیڈر کہا جاتا ہے۔
مہاراشٹر میں ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات میں شردپوار کی قیادت میں این سی پی ریاست کی ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھری ہے۔
اس درمیان این سی پی کی صف سے ایک سیاستدان نواب ملک کو بھی ریاستی ہی نہیں قومی سطح پر اپنی حیثیت اور شناخت بنانے میں زبردست کامیابی ملی ہے۔نواب ملک ایک بار پھر ٹرامبے اسمبلی حلقہ سے این سی پی کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہیں۔
ریاستی اسمبلی انتخابات سے قبل سیاسی اتھل پتھل اور دل بدلنے کے دور میں پارٹی کے ممبئی صدر سچن اہیر پارٹی چھوڑ کر شیوسینا میں شامل ہوگئے۔تب شردپوار نے انہیں ممبئی این سی پی کا صدر نامزد کردیا اور حالیہ سیاسی بحران میں این سی پی کے ترجمان بھی بن کر ابھرے ہیں حالانکہ وہ ایک عرصے سے ترجمان رہے ہیں لیکن اس بار وہ قومی سطح کے ترجمان بن گئے اور بہتر انداز میں ترجمانی کی ہے۔
نواب ملک 20 جون سنہ 1959کو اتر پردیش میں پیدا ہوئے ،لیکن 1970 میں ممبئی آئے اور یہیں ان کی پرورش میں ہوئی ۔انہوں نے ممبئی کے مشہور تعلیمی درس گاہ انجمن اسلام ہائی اسکول سے ابتدائی اور سکنڈری کی تعلیم حاصل۔
پہلی بار سنہ 1996 میں سماج وادی پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے ضمنی الیکشن جیتا اس کے بعد نواب ملک این سی پی میں شامل ہوگئے اور تین مرتبہ 1996,1999 اور 2004 میں نہرونگر اسمبلی حلقہ سے کامیاب ہوئے ،2009 میں وہ ایک بار پھر انوشکتی نگر سے کامیاب ہوگئے لیکن سنہ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں مودی لہر کا وہ بھی شکار بن گئے۔
لیکن اس مرتبہ انہوں نے پھر ٹرامبے حلقہ سے کامیابی حاصل کی اور اس کے ساتھ ہی ان کا سیاسی قد بڑھ گیا اور ایک بڑے لیڈر کے طورپر ابھرے ہیں ان کے بھائی کیپٹن ملک اور بہن سعیدہ خان بھی سیاست میں سرگرم ہیں۔
نواب ملک نے کانگریس پارٹی سے اپنے سیاسی کرئیر کا آغاز کیا تھا لیکن پھر سماج وادی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور ضمنی الیکشن میں شیوسینا کے قد آور رہنما کو شکست دی۔
ایس پی لیڈرشپ سے اختلاف پیدا ہوا اور وہ این سی پی سے وابستہ ہوگئے ،جہاں ترقی اور کامرانی نے ان کے قدم چومے۔ سنہ 1999 میں کانگریس اور این سی پی کی اتحادی حکومت میں وزیر ہاؤسنگ بنائے گئے لیکن کسی وجہ سے چند ماہ میں مستعفی ہوگئے۔
شردپوار نے ان کی سیاسی بصیرت اور قابلیت کو بھانپ لیا اور انہیں این سی پی کا ترجمان مقرر کیا گیا کیونکہ وہ اردو، ہندی، مراٹھی اور انگریزی پر عبور رکھتے ہیں۔
پوار کے خیال میں ان میں ایک بہترین لیڈر بننے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔اور ایک ترجمان کی حیثیت سے وہ بھر پور انداز میں اپنی بات کرتے ہیں انھیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ این سی پی کی بھر پور ترجمانی کرتے ہیں۔
نواب ملک اپنے حسن سلوک اور نرم گوئی کی وجہ سے صحافیوں میں بھی کافی مقبول ہیں۔ جو صحافیوں کے تلخ اور چبھتے ہوئے سوالات کے جوابات بڑی خندہ پیشانی سے دیتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں۔
اس بار ان کی صلاحیت اور قابلیت کو شردپوار نے محسوس کیا اور انھیں اپنی سرپرستی میں آگے بڑھانے میں مدد کی اور ایک بہتر انداز میں نواب ملک نے خود کو پیش کیا ہے۔
سیاسی بحران کے دوران بھی وہ ثابت قدم رہے اور یہی سب نواب ملک کی سیاسی ترقی اور کامرانی قابل دید ہے کیونکہ انہیں ادھو کابینہ میں شامل کرلیا گیا ہے۔