مرکزی حکومت کی جانب سے اورنگ آباد کا نام کو تبدیل کرنے کے معاملہ میں این او سی دی گئی ہے، جس کے بعد بڑے پیمانے پر اورنگ آباد کے سرکاری دفاتر میں شہر کا نام تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے، لیکن معاملہ عدالت میں زیرغور ہے۔ شہر کے نام کی تبدیلی کو لے کر کہیں خوشی منائی جارہی ہے تو کسی حلقہ کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اورنگ آباد ضلع کلکٹر دفتر کے روبرو اورنگ آباد نامانتر مخالف کمیٹی کے بینر تلے احتجاج کیا جارہا ہے۔ اورنگ آباد کے نام کی تبدیلی کو لے کر شہر کی کئی ساری سیاسی و سماجی تنظیمیں مخالفت کر رہی ہیں، اورنگ آباد نامانتر مخالف کمیٹی میں مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے خواتین نے کہا ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکوم سیاست کر رہی ہے، عوام کی پریشانیوں کو لے کر دونوں ہی حکومت سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ملک میں بے روزگاری دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، مہنگائی ریکارڈ توڑ رہی ہے اور حکومت شہروں کے نام تبدیل کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔موجودہ دور میں سیاسی پارٹیاں تر قیا تی امور انجام دینے کے بجائے شہروں کے نام بدل رہی ہے، جس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔حکومت کو شہروں کے نام بدلنے کے لئےکروڑوں روپے کا خرچ آئیگا۔
خواتین کا کہنا ہے کہ شہر کا نام تو تبدیل ہو جائیگا لیکن اس کے بعد عوام کو قطار میں کھڑے کر آدھار کارڈ، لائسنس، راشن کارڈ اور دوسرے ضروری دستاویزات کو درست کرنا ہوگا اس کے لئے بھی عوام کی ہی جیب خالی ہو گی۔ اورنگ آباد کا نیا نام سے چھترپتی سمبھاجی نگر کے خلاف احتجاج پر بیٹھی خواتین کا کہنا ہے کہ جب تک شہر کا نام اورنگ آباد نہیں کر دیا جاتا تب تک وہ احتجاج کرتی رہیں گی۔