مالیگاؤں میں اپریل کے بعد طبی امداد نہ ملنے کے سبب کئی اموات ہوئی ہیں۔ مقامی لوگوں نے نجی کلینک اور ہسپتالوں پر الزام عائد کیا ہے کہ بر وقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب اموات میں اضافہ ہوا۔
اپریل کے آخر تک تقریبا 580 مثبت معاملے سامنے آئے۔ مئی تک سرکاری اعداد و شمار نے 600 اموات کو عبور کر لیا ہے۔
مالیگاؤں میں 400 سے زائد نجی کلینک اور تین سرکاری ہسپتال ہیں چونکہ کئی ڈاکٹرز خود اس وبائی مرض کا شکار ہونے لگے، اسی وجہ سے انہوں نے اپنے کلینک بند کرنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی۔
سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی طور پر سول ہسپتال اور جیون ہسپتال اتنے بڑے بحران سے نمٹنے کے لیے مناسب عملہ یا مطلوبہ انفراسٹرکچر نہیں رکھتے ہیں،جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کورونا کے مریضوں کے نمونوں کی جانچ جو کہ سرکاری سسٹم اور سست نظام کا شکار ہو گیا ہے۔
مالیگاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ 'مالیگاؤں میں ہونے والی جانچ کی تعداد بہت کم ہے۔ لیب کی رپورٹ ان تک پہنچنے کے لیے آٹھ دن سے زیادہ کا وقت لگتا ہے۔ بہت ساری رپورٹ کھو جاتی ہے اور کئی بار تو ایسا ہوا ہے کہ رپورٹ پہنچنے سے پہلے مریض کی موت ہو چکی ہوتی ہے۔ سست رفتاری اور ناقص سرکاری نظام کی وجہ سے لوگ کورونا سے متاثر ہو رہے ہیں اور کئی افراد وقت سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
مالیگاؤں کے لیے ٹیسٹ کے نمونے یا تو ناسک، جو یہاں سے 100 کلومیٹر دور ہے، دھولیہ 60 کلومیٹر دور ہے یا ناگپور جو 670 کلومیٹر دور ہے بھیجے جاتے ہیں۔
حکومت نے کورونا وبا کی خطرناک اب صورتحال کو روکنے کے مقصد کے ساتھ 'مشن مالیگاؤں' شروع کیا ہے۔
نجی ہسپتالوں کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے کہا ہے۔ کلکٹر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیر کووڈ مریضوں کا علاج بہتر سے بہتر کریں۔ گھر گھر جا کر اسکریننگ کرنے کے لیے موبائل وین بھی شروع کر دی گئی ہیں لیکن افسوس کہ سب کچھ کاغذ پر ہے۔ حقیقت میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔
مالیگاؤں چونکہ وبائی امراض میں پھنسے ہوئے مہاراشٹر کے بیشتر معاملات میں سب سے آگے ہے۔ ان سب کی توجہ صرف ممبئی اور پونے جیسے بڑے شہروں پر ہی تھی جبکہ مالیگاؤں جیسے شہر کو آسانی سے نظرانداز کیا گیا تھا اور اسی سوتیلے سلوک کے نتیجے میں مالیگاؤں نہ صرف کورونا وائرس کا ایک بڑا ہاٹ اسپاٹ بن گیا ہے۔