ETV Bharat / state

ادھو ٹھاکرے کی ریاستی قانون ساز کونسل کی رکنیت پر لگا سوالیہ نشان؟

ریاست مہاراشٹر کے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے کی رکن کونسل نامزد کر ودھان پریشد میں بھیجنے کے سوال پر گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی خاموشی نے شیوسینا چیف اور ریاست کے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے کے مسائل میں اضافہ کا باعث بنا ہوا ہے۔

uddhav thackeray government in difficult situation
ریاست مہاراشٹر کے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے
author img

By

Published : Apr 19, 2020, 12:32 AM IST

Updated : Apr 19, 2020, 10:14 AM IST

ریاست مہاراشٹر کے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے کو ودھان پریشد رکن نامزد کیے جانے کی سفارش 10 دن سے راج بھون میں التوای میں پڑا ہوا ہے۔ لیکن اس پر ابھی تک کوئی بھی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔


اب وزیر اعلی کے پاس صرف 20 دن مزید رہ گئے ہیں۔ اس دوران اگر وہ ودھان پریشد کے لیے نامزد نہیں ہوتے تو ان کی وزیر اعلی کی کرسی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو کورونا کے خطرے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے میں سرکار کا دارومدار راج بھون کے فیصلے پر مرکوز ہے۔

uddhav thackeray government in difficult situation
ادھو ٹھاکرے حکومت پر مشکلات کے بادل


۶؍اپریل کو ریاستی کابینہ نے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے کی غیر حاضری میں نائب وزیر اعلی اجیت دادا پوار کی صدارت میں ہونے والی میٹنگ میں ایک رائے سے یہ سفارش ریاستی گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کو روانہ کی تھی کہ موجودہ حالات میں ودھان پریشد کے انتخابات نہیں ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے جو فی الحال ودھان سبھا یا ودھان پریشد کسی بھی کونسل کے رکن نہیں ہیں۔ انہیں گورنر کوٹے سے ودھان پریشد کا رکن نامزد کیے جانے کا فیصلہ ریاستی کابینہ ایک رائے سے منظور کیا ہے اور اس فیصلے پر عمل کرنے کی سفارش کابینہ نے ریاستی گورنر سے کی مگر11 روز ہونے کے باوجود ابھی تک ریاستی گورنر نے اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے۔ اس سے قبل کبھی اس طرح کے حالات نہیں آئے کہ گورنر کو کسی وزیر اعلی کی نامزدگی کے لیے اپنے کوٹے سے ودھان پریشد کا ممبر بنانے کے لیے سفارش بھیجی گئی ہو۔


مہاراشٹر میں آئے ہوئے اس سیاسی بحران کو ٹالنے کے لیے ہی کابینی اجلاس میں ایک رائے سے ادھو ٹھاکرے کو ودھان پریشد کا رکن گورنر کوٹے سے بنانے کے لیے سفارش بھیجی گئی تھی۔

اطلاعات کے مطابق ریاستی گورنر بھگت سنگھ کوشیاری اس معاملے میں قانونی مشیروں سے صلاح و مشورہ میں مصروف ہیں۔ ریاستی وزیر کے مطابق وزیر اعلی کی معیاد۲۸ ؍مئی(۲۸؍ مئی سے پہلے تک کسی بھی قانون ساز کونسل کا رکن ہونا ضروری ہے) کو ختم ہو رہی ہے۔ انہیں امید ہے کہ اس سے پہلے گورنر اپنا فیصلہ سنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے گورنر کا فیصلہ مثبت ہونے کی امید ہے کیونکہ عوامی بحران سے بچانے کی جتنی ذمہ داری ریاستی سرکار کی ہے اتنی ہی گورنر کی بھی ہے۔

دوسر ی جانب اگر گورنر نے کابینہ کی جانب سے دی جانے والی سفارش کو رد کر دیا تب کیا ہوگا؟ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ایسی صورت میں حکومت کے پاس دو ہی راستے ہوں گے ایک تو۳ مئی کو لاک ڈاؤن ختم ہونے کے فوراً بعد الیکشن کمیشن ودھان پریشد کی خالی پڑی ہوئی سیٹوں کے انتخاب کا اعلان کریں اور ۲۷ مئی سے پہلے الیکشن کی تیاری مکمل کرکے انتخاب کا اعلان کریں، تاکہ وزیر اعلی نو منتخب رکن کی حیثیت سے کونسل کے رکن بنے رہ سکتے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن یہ نہیں کرتا تو پھر وزیر اعلی اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر نئے سرے سے وزیر اعلی کے طور پر حلف لے سکتے ہیں۔ حالانکہ اس حالت میں ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ کابینہ کے تمام اختیارات وزیر اعلی کے پاس ہیں۔ اگر وزیر اعلی اپنے عہدے سے استعفی دیتے ہیں تو پوری کابینہ کو استعفی دینا ہوگا اور تمام وزرا کو دوبارہ حلف اٹھانا پڑے گا۔


سیاسی گلیاروں میں کہا جاتا ہے کہ وزیر اعلی کے استعفی دینے کے بعد’ گیند‘ ایک مرتبہ پھر گورنر کے پالے میں چلی جائے گی اور گورنر ہی یہ طے کریں گے کہ وہ کب حلف دلوائیں گے۔ بہرحال اس حالات کو ٹالنے کے لیے ریاستی سرکار کی طرف سے بھی قانونی صلاح و مشورہ کیا جا رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگر گورنر کابینہ کی صلاح کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں تو حکومت کی جانب سے گورنر کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
حالانکہ ابھی تک حکومت کی جانب سے اس بات کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ذرائع کے مطابق حکومت کے کچھ ناراض وزرا اور بڑے رہنما بھی ماہرین قانون سے صلاح و مشورہ کر رہے ہیں۔


قانون کے مطابق۱۶۴(۴) کے تحت اگر کوئی شخص ایم ایل سی اور ایم ایل اے نہ ہوتے ہوئے وزیر یا وزیر اعلی کا حلف لیتا ہے تو اس کے لیے ۶؍ مہینے کے اندر قانون ساز کونسل کا رکن بننا ضروری ہوتا ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے ۲۸؍ نومبر۲۰۱۹ کو وزیر اعلی کے طور پر حلف لیا تھا اس لیے ۲۷؍ مئی تک ان کا رکن بننا قانون کے مطابق ضروری ہے۔


مہاوکاس آگھاڑی سرکار کے انتخابی ماہرین کا اندازہ یہ تھا کہ ۱۵؍اپریل کو خالی ہونے والی اسمبلی کی۹؍ سیٹوں میں سے ایک سیٹ پر وزیر اعلی کو آسانی سے انتخاب جیت کر ودھان پریشد کے رکن منتخب ہوجائیں گے۔ لیکن اس سے پہلے ہی کورونا کی آمد نے کھیل بگاڑ دیا اور الیکشن کمیشن نے سبھی انتخابات کو رد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی مہا وکاس آگھاڑی سرکار کا سارا انتخابی اندازہ غلط ثابت ہوا۔


کرونا بحران کی وجہ سے وزیر اعلی کے طور پر ادھو ٹھاکرے کی ریاستی سطح پر عوامی مقبولیت کی وجہ سے اپوزیشن کا بھی ٹینشن بڑھ گیا ہے۔ وزیر اعلی جس طرح عوامی سطح پر وکاس کے کام بنا کسی تام جھام کر رہے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے جیسے وہ عوام کا نہیں بلکہ اپنے پریوار کے ہی لوگوں کا کام کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے عوامی سطح پر وزیر اعلی بہت ہی سوجھ بوجھ اور حکمت عملی کے ساتھ عوامی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سیاسی رہنما، سرکاری افسران میں بھی وزیر اعلی کے شناخت ایک سچے، سیدھے سادھے، ایماندار اورعملی طور پر کام کرنے والے وزیر اعلی کے طور پر بن گئی ہے۔ ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن بی جے پی میں ایک خوف طاری ہے کہ اگر وزیر اعلی ایک مرتبہ پھر بہتر وزیر اعلی کے طور پر پہچان بنا لی تو مہا وکاس آگھاڑی کی سرکار پر منڈلانے والے خطرات نہ صرف ٹل جائیں گے بلکہ سرکار گرانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔


دراصل گورنر بھی بی جے پی کے ہی نامزد کردہ ہیں اس لیے ان کی خاموشی کے نقطہ نظر سے سیاسی حلقوں میں بہت ساری بحث و مباحثے جاری ہیں۔ گزشتہ دنوں مہا وکاس آگھاڑی کے روح رواں اور این سی پی کے قدآور رہنما شرد پوار نے گورنر کی متوازی سرحکومت چلانے کی تنقید کی تھی۔ وہیں دوسری جانب بی جے پی کے لیڈران بھی کرونا بحران کے دوران حکومت کے کام کاج پر تنقید کرتے ہوئے مسلسل گورنر سے شکایات کر رہے تھے۔

ریاست مہاراشٹر کے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے کو ودھان پریشد رکن نامزد کیے جانے کی سفارش 10 دن سے راج بھون میں التوای میں پڑا ہوا ہے۔ لیکن اس پر ابھی تک کوئی بھی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔


اب وزیر اعلی کے پاس صرف 20 دن مزید رہ گئے ہیں۔ اس دوران اگر وہ ودھان پریشد کے لیے نامزد نہیں ہوتے تو ان کی وزیر اعلی کی کرسی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو کورونا کے خطرے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے میں سرکار کا دارومدار راج بھون کے فیصلے پر مرکوز ہے۔

uddhav thackeray government in difficult situation
ادھو ٹھاکرے حکومت پر مشکلات کے بادل


۶؍اپریل کو ریاستی کابینہ نے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے کی غیر حاضری میں نائب وزیر اعلی اجیت دادا پوار کی صدارت میں ہونے والی میٹنگ میں ایک رائے سے یہ سفارش ریاستی گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کو روانہ کی تھی کہ موجودہ حالات میں ودھان پریشد کے انتخابات نہیں ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے جو فی الحال ودھان سبھا یا ودھان پریشد کسی بھی کونسل کے رکن نہیں ہیں۔ انہیں گورنر کوٹے سے ودھان پریشد کا رکن نامزد کیے جانے کا فیصلہ ریاستی کابینہ ایک رائے سے منظور کیا ہے اور اس فیصلے پر عمل کرنے کی سفارش کابینہ نے ریاستی گورنر سے کی مگر11 روز ہونے کے باوجود ابھی تک ریاستی گورنر نے اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے۔ اس سے قبل کبھی اس طرح کے حالات نہیں آئے کہ گورنر کو کسی وزیر اعلی کی نامزدگی کے لیے اپنے کوٹے سے ودھان پریشد کا ممبر بنانے کے لیے سفارش بھیجی گئی ہو۔


مہاراشٹر میں آئے ہوئے اس سیاسی بحران کو ٹالنے کے لیے ہی کابینی اجلاس میں ایک رائے سے ادھو ٹھاکرے کو ودھان پریشد کا رکن گورنر کوٹے سے بنانے کے لیے سفارش بھیجی گئی تھی۔

اطلاعات کے مطابق ریاستی گورنر بھگت سنگھ کوشیاری اس معاملے میں قانونی مشیروں سے صلاح و مشورہ میں مصروف ہیں۔ ریاستی وزیر کے مطابق وزیر اعلی کی معیاد۲۸ ؍مئی(۲۸؍ مئی سے پہلے تک کسی بھی قانون ساز کونسل کا رکن ہونا ضروری ہے) کو ختم ہو رہی ہے۔ انہیں امید ہے کہ اس سے پہلے گورنر اپنا فیصلہ سنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے گورنر کا فیصلہ مثبت ہونے کی امید ہے کیونکہ عوامی بحران سے بچانے کی جتنی ذمہ داری ریاستی سرکار کی ہے اتنی ہی گورنر کی بھی ہے۔

دوسر ی جانب اگر گورنر نے کابینہ کی جانب سے دی جانے والی سفارش کو رد کر دیا تب کیا ہوگا؟ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ایسی صورت میں حکومت کے پاس دو ہی راستے ہوں گے ایک تو۳ مئی کو لاک ڈاؤن ختم ہونے کے فوراً بعد الیکشن کمیشن ودھان پریشد کی خالی پڑی ہوئی سیٹوں کے انتخاب کا اعلان کریں اور ۲۷ مئی سے پہلے الیکشن کی تیاری مکمل کرکے انتخاب کا اعلان کریں، تاکہ وزیر اعلی نو منتخب رکن کی حیثیت سے کونسل کے رکن بنے رہ سکتے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن یہ نہیں کرتا تو پھر وزیر اعلی اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر نئے سرے سے وزیر اعلی کے طور پر حلف لے سکتے ہیں۔ حالانکہ اس حالت میں ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ کابینہ کے تمام اختیارات وزیر اعلی کے پاس ہیں۔ اگر وزیر اعلی اپنے عہدے سے استعفی دیتے ہیں تو پوری کابینہ کو استعفی دینا ہوگا اور تمام وزرا کو دوبارہ حلف اٹھانا پڑے گا۔


سیاسی گلیاروں میں کہا جاتا ہے کہ وزیر اعلی کے استعفی دینے کے بعد’ گیند‘ ایک مرتبہ پھر گورنر کے پالے میں چلی جائے گی اور گورنر ہی یہ طے کریں گے کہ وہ کب حلف دلوائیں گے۔ بہرحال اس حالات کو ٹالنے کے لیے ریاستی سرکار کی طرف سے بھی قانونی صلاح و مشورہ کیا جا رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگر گورنر کابینہ کی صلاح کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں تو حکومت کی جانب سے گورنر کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
حالانکہ ابھی تک حکومت کی جانب سے اس بات کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ذرائع کے مطابق حکومت کے کچھ ناراض وزرا اور بڑے رہنما بھی ماہرین قانون سے صلاح و مشورہ کر رہے ہیں۔


قانون کے مطابق۱۶۴(۴) کے تحت اگر کوئی شخص ایم ایل سی اور ایم ایل اے نہ ہوتے ہوئے وزیر یا وزیر اعلی کا حلف لیتا ہے تو اس کے لیے ۶؍ مہینے کے اندر قانون ساز کونسل کا رکن بننا ضروری ہوتا ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے ۲۸؍ نومبر۲۰۱۹ کو وزیر اعلی کے طور پر حلف لیا تھا اس لیے ۲۷؍ مئی تک ان کا رکن بننا قانون کے مطابق ضروری ہے۔


مہاوکاس آگھاڑی سرکار کے انتخابی ماہرین کا اندازہ یہ تھا کہ ۱۵؍اپریل کو خالی ہونے والی اسمبلی کی۹؍ سیٹوں میں سے ایک سیٹ پر وزیر اعلی کو آسانی سے انتخاب جیت کر ودھان پریشد کے رکن منتخب ہوجائیں گے۔ لیکن اس سے پہلے ہی کورونا کی آمد نے کھیل بگاڑ دیا اور الیکشن کمیشن نے سبھی انتخابات کو رد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی مہا وکاس آگھاڑی سرکار کا سارا انتخابی اندازہ غلط ثابت ہوا۔


کرونا بحران کی وجہ سے وزیر اعلی کے طور پر ادھو ٹھاکرے کی ریاستی سطح پر عوامی مقبولیت کی وجہ سے اپوزیشن کا بھی ٹینشن بڑھ گیا ہے۔ وزیر اعلی جس طرح عوامی سطح پر وکاس کے کام بنا کسی تام جھام کر رہے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے جیسے وہ عوام کا نہیں بلکہ اپنے پریوار کے ہی لوگوں کا کام کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے عوامی سطح پر وزیر اعلی بہت ہی سوجھ بوجھ اور حکمت عملی کے ساتھ عوامی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سیاسی رہنما، سرکاری افسران میں بھی وزیر اعلی کے شناخت ایک سچے، سیدھے سادھے، ایماندار اورعملی طور پر کام کرنے والے وزیر اعلی کے طور پر بن گئی ہے۔ ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن بی جے پی میں ایک خوف طاری ہے کہ اگر وزیر اعلی ایک مرتبہ پھر بہتر وزیر اعلی کے طور پر پہچان بنا لی تو مہا وکاس آگھاڑی کی سرکار پر منڈلانے والے خطرات نہ صرف ٹل جائیں گے بلکہ سرکار گرانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔


دراصل گورنر بھی بی جے پی کے ہی نامزد کردہ ہیں اس لیے ان کی خاموشی کے نقطہ نظر سے سیاسی حلقوں میں بہت ساری بحث و مباحثے جاری ہیں۔ گزشتہ دنوں مہا وکاس آگھاڑی کے روح رواں اور این سی پی کے قدآور رہنما شرد پوار نے گورنر کی متوازی سرحکومت چلانے کی تنقید کی تھی۔ وہیں دوسری جانب بی جے پی کے لیڈران بھی کرونا بحران کے دوران حکومت کے کام کاج پر تنقید کرتے ہوئے مسلسل گورنر سے شکایات کر رہے تھے۔

Last Updated : Apr 19, 2020, 10:14 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.