ای ٹی وی بھارت کے نمائندے اسرار چشتی نے عرضی گذار کے وکیل مظہر جاگیردار سے خصوصی بات کی۔ مظہر جاگیدار نے بتایا کہ ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے دہلی کے نظام الدین مرکز کے تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والے غیر ملکیوں کے خلاف درج کردہ ایف آئی آر کو کالعدم قرار دیا اور میڈیا پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے تبلیغی جماعت کے ارکان کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے غلط پروپیگنڈہ کیا تھا۔
جسٹس ٹی وی نلواڈے اور جسٹس ایم جی سیولیکر پر مشتمل بنچ نے اس سلسلہ میں پولیس کے رول کی بھی سوال اٹھائے۔ بنچ نے مزید کہا کہ 'ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وبا کے دوران حکومت قربانی کا بکرا تلاش کرنے میں مصروف تھی اور اس نے تبلیغی جماعت سے وابستہ غیرملکیوں کو بلی کا بکرا بنانے کےلیے منتخب کیا'۔
29 غیرملکی شہریوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر عدالت میں سماعت کی گئی جن پر دہلی میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز میں منعقدہ اجتماع میں شرکت کرکے سیاحتی ویزا کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا گیا اور ان پر وبائی بیماری ایکٹ، مہاراشٹر پولیس ایکٹ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ، غیر ملکی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے تھے۔
اورنگ آباد بنچ نے 58 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ 'غیرملکی تبلیغی ارکان پر لگائے گئے الزامات مبہم ہیں اور اس کاروائی کے ذریعہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی'۔
عدالت نے مزید کہا کہ 'تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والے غیرملکیوں کے خلاف ملکی میڈیا جس میں پرنٹ اور الکٹرانک دونوں شامل ہیں نے غلط پروپگنڈہ کیا اور ایسی تصویر پیش کی گئی کہ یہ غیرملکی تبلیغی ارکان ہی بھارت میں کورونا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں'۔
اورنگ آباد بنچ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ ’اتیتھی دیوو بھوا‘ (مہمان، بھگوان کی طرح ہوتا ہے) بھارتی ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن غیرملکی تبلیغی ارکان کے خلاف کیا گیا برتاؤ اس عظیم روایت کے بالکل برخلاف ہے۔
عدالت نے کہا کہ وبا سے پیدا شدہ حالات میں ہمیں اپنی مہمان نوازی کی روایات پر عمل کرتے ہوئے ان کی مدد کرنی چاہئے تھی لیکن ہم نے ان پر ملک میں کورونا پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے انہیں جیلوں میں بند کردیا جو غیرمناسب عمل ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ 16 جون کو ایک اہم فیصلہ میں مدارس ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ تبلیغی جماعت سے وابستہ 31 غیر ملکیوں کے خلاف فارنر ایکٹ کے تحت قائم مقدمات ختم کرکے انہیں جلد از جلد ان کے ملک روانہ کیا جائے کیونکہ یہ لوگ پہلے ہی بہت زیادہ پریشانی برداشت کرچکے ہیں، واپس اپنے ملک جانا ان کا حق ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ آئین ہند کے آرٹیکل 21 کے تحت ان کی مزید قید کورونا وبا میں انہیں حاصل آزادی کی خلاف ورزی ہوگی۔
جسٹس جی آر سوامی ناتھ نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ میڈیکل ایمرجنسی میں کسی بھی شخص کو اس طرح جیل میں نہیں رکھا جاسکتا لہٰذا نھیں جلداز جلد ان کے ممالک واپس بھیج دینا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہ اچھا ہوا کہ عرض گذار کورونا پازیٹیو نہیں ہے لیکن کیا پتہ کل وہ کورونا سے متاثر ہوجائیں، ان کی جانوں کو خطرہ ہے لہذا جب بھی عرضی گذار سفر کے اخراجات برداشت کرنے کےلیے تیار ہوں انہیں ان کے ممالک روانہ کردینا چاہئے۔
قبل ازیں اسی طرح کا فیصلہ نوح کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ عدالت نے 22 مئی کو اور سہارنپور کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ عدالت نے 10 جون کو دیا تھا۔ دونوں عدالتوں نے اہم فیصلہ سناتے ہوئے غیر ملکی تبلیغی اراکین پر غیرملکی قوانین کے تحت عائد تمام دفعات کو بے بنیاد تسلیم کرتے ہوئے سبھی ارکان کو بری کردیا تھا اور انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ جلد سے جلد سبھی مہمانوں کو ان کے ملک بھیجنے کے انتظامات کیے جائیں۔ سہارنپور کی عدالت نے بھی ان غیر ملکی اراکین کو دفعہ 188کا ملزم مانتے ہوئے ان کے اوپر کوئی جرمانہ عائد نہیں کیا اور کہا کہ یہ لوگ ایک مہینے سے زائد کی سزا پہلے ہی کاٹ چکے ہیں، اس لیے اب کسی طرح کے جرمانے یا سزا کی ضرورت نہیں ہے اور انہیں فی الفور رہا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
ہریانہ کی عدالت نے بھی اسی طرح کے مقدمے میں سبھی اراکین پر ایک ایک ہزار روپیے کا جرمانہ عائد کیا تھا، جو اسی وقت ان لوگوں نے ادا کردیا، جس کے بعد انھیں رہا کردیا گیا تھا۔ ہریانہ عدالت کی جانب سے رہا کئے گئے 57 غیر ملکی تبلیغی ارکان میں انڈونیشیا کے 11، سری لنکا کے 24، جنوبی افریقہ کے 5، بنگلہ دیش کے 11 اور تھائی لینڈ کے 6 ارکان شامل تھے۔