ETV Bharat / state

No Bridge in School Way جان خطرہ میں ڈال کر اسکول کا سفر

ملک کو آزاد ہوئے 75 سال ہوچکے ہیں، لیکن ایسے کئی دیہی علاقے ہیں جہاں پکی سڑکیں نہیں ہیں، جس کی وجہ سے بارش کے موسم میں لوگوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اورنگ آباد ضلع کے گنگاپور کے ایک علاقہ میں بچے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اسکول جانے پر مجبور ہیں۔

author img

By

Published : Aug 20, 2023, 11:20 AM IST

Updated : Aug 20, 2023, 1:06 PM IST

Etv Bharat
Etv Bharat
جان خطرہ میں ڈال کر اسکول کا سفر

اورنگ آباد: ملک میں آزادی کا 75 واں امرت مہوتسو دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے جس پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں لیکن ملک کے مختلف دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں، اس طرح کا الزام گاؤں کے لوگوں نے لگایا ہے۔یہ ضلع پریشد بھیوادھانورا کے اسکول کے بچے ہیں جو اسکول جانے کے لیے تھرموکول پر بیٹھ کر ندی پار کررہے ہیں، ان بچوں کا کہنا ہے کہ اس ندی میں فی الحال پانی کم ہے، لیکن اگر جیکواڑی ڈیم بھر جاتا ہے تو ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر ان بچے کو تھرماکول پر بیٹھ کر فاصلہ طے کر کے اسکول جانا پڑتا ہے۔ ان بچوں کے ساتھ کئی بار حادثات بھی ہو چکے ہیں۔ بچوں کا کہنا ہے کہ تیز ہوا چلتی ہے تو تھرماکول پانی کی لہروں کے ساتھ اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے انہیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔

ان بچوں کا کہنا ہے کہ اکثر ندی پار کرتے وقت ان کے والدین ان کے ساتھ ہوتے ہیں، اگر والدین زراعت کے کام پر اپنی کھیتی پر جاتے ہیں تو انہیں تھرموکول پر بیٹھ کر اکیلے ہی ندی پار کرنا پڑتا ہے۔ان بچوں کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا یہی واحد راستہ ہے اور کچی سڑک سے اسکول جانے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں اور اس سڑک کا فاصلہ 20 سے 25 کلومیٹر ہے، اس لیے یہ بچے تھرموکول پر بیٹھ کر ندی پار کر کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ دوسری طرف بچوں کا کہنا ہے کہ بارش کے دوران راستے میں بہت کیچڑ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ کیچڑ میں پھنس جاتے ہیں اور اسکول جانے میں کافی دشواری ہوتی ہے۔

ان بچوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں اسکول جانے کے لئے حکومت دوسرا راستہ بنائیں تاکہ ان لوگوں کو اسکول جانے کے لیے اپنی جان جوکھم میں نہ ڈالنی پڑے، اور وہ آسانی سے اسکول پہنچ سکیں۔ بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ پل تعمیر ہونے کی وجہ سے کئی دیہات کے لوگوں کو سہولت ہو گی اور انہیں زیادہ فاصلہ طے نہیں کرنا پڑے گا، اس کے ساتھ ساتھ دیگر دیہات کے لوگ بھی یہ پل استعمال کر سکیں گے۔

بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کی زمین بھیواڈھانورہ گاؤں میں ہے اور وہ یہاں خود کھیتی باڑی کرتے ہیں، گاؤں صرف ایک ہے، لیکن اس گاؤں سے شیونا ندی گزرتی ہے، جس کی وجہ سے گاؤں دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ یہ گاؤں جیکواڑی ڈیم کے پیچھے کا پانی ہے، اگر جیکواڑی ڈیم پورا بھر جاتا ہے تو ان کے گاؤں سے گزرنے والی شیونا ندی بھر جاتی ہے اور انہیں اپنے گاؤں جانے کے لیے تھرموکول کا سہارا لینا پڑتا ہے اور تھرموکول سے تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، ساتھ ہی گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو جائے تو اسے بھی اس ندی کے ذریعے تھرموکول پر بٹھا کر ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔

بھیوادھانورا گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو اس بارے میں پچھلے کئی سالوں سے بتایا جا رہا ہے اور اس سال بھیوادھانورا گاؤں کے بچوں کے مسائل کو قانون ساز کونسل میں بھی اٹھایا گیا تھا۔ نائب وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے یقین دہانی کرائی تھی کہ اس معاملے پر جلد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ بھیوادھانورا ضلع پریشد اسکول کے پرنسپل کا کہنا ہے کہ کچھ بچے اس گاؤں کے ہیں لیکن وہ ندی پار کرکے اسکول آتے ہیں کیونکہ ان کے کھیت میں ہی ان کا گھر ہے اس لیے یہ بچے اسکول کے لیے ندی پار کرنے کے لئے تھرموکول پر بیٹھ کر آتے ہیں۔ بچوں کے اسکول آنے کا ایک ہی راستہ ہے لیکن وہ راستہ دور ہونے کی وجہ سے بچے اس قریب کے راستے سے اسکول آتے ہیں۔

مزید پڑھیں: اردو میڈیم اسکولز میں ہیڈ ماسٹرز کا تقرر کرنے کا مطالبہ

تھرموکول پر اسکول جانے والے بچوں کے بارے میں گنگا پور تحصیل کے تحصیلدار سنتوش سونی نے بتایا ہے کہ گاؤں کے لوگوں کو پہلے ہی گھر بنانے کے لیے گاؤں میں جگہ دی گئی تھی، لیکن دریا کے دوسری جانب کچھ لوگوں کی کھیتی کی وجہ سے وہ اور بچے کھیت میں ہی رہتے ہیں اور روزانہ تھرموکول پر بیٹھ کر دریا پار کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی جان کو خطرہ ہے، لیکن یہ معاملہ قانون ساز کونسل میں بھی اٹھایا گیا اور ہم بھی پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت ان لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جان خطرہ میں ڈال کر اسکول کا سفر

اورنگ آباد: ملک میں آزادی کا 75 واں امرت مہوتسو دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے جس پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں لیکن ملک کے مختلف دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں، اس طرح کا الزام گاؤں کے لوگوں نے لگایا ہے۔یہ ضلع پریشد بھیوادھانورا کے اسکول کے بچے ہیں جو اسکول جانے کے لیے تھرموکول پر بیٹھ کر ندی پار کررہے ہیں، ان بچوں کا کہنا ہے کہ اس ندی میں فی الحال پانی کم ہے، لیکن اگر جیکواڑی ڈیم بھر جاتا ہے تو ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر ان بچے کو تھرماکول پر بیٹھ کر فاصلہ طے کر کے اسکول جانا پڑتا ہے۔ ان بچوں کے ساتھ کئی بار حادثات بھی ہو چکے ہیں۔ بچوں کا کہنا ہے کہ تیز ہوا چلتی ہے تو تھرماکول پانی کی لہروں کے ساتھ اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے انہیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔

ان بچوں کا کہنا ہے کہ اکثر ندی پار کرتے وقت ان کے والدین ان کے ساتھ ہوتے ہیں، اگر والدین زراعت کے کام پر اپنی کھیتی پر جاتے ہیں تو انہیں تھرموکول پر بیٹھ کر اکیلے ہی ندی پار کرنا پڑتا ہے۔ان بچوں کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا یہی واحد راستہ ہے اور کچی سڑک سے اسکول جانے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں اور اس سڑک کا فاصلہ 20 سے 25 کلومیٹر ہے، اس لیے یہ بچے تھرموکول پر بیٹھ کر ندی پار کر کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ دوسری طرف بچوں کا کہنا ہے کہ بارش کے دوران راستے میں بہت کیچڑ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ کیچڑ میں پھنس جاتے ہیں اور اسکول جانے میں کافی دشواری ہوتی ہے۔

ان بچوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں اسکول جانے کے لئے حکومت دوسرا راستہ بنائیں تاکہ ان لوگوں کو اسکول جانے کے لیے اپنی جان جوکھم میں نہ ڈالنی پڑے، اور وہ آسانی سے اسکول پہنچ سکیں۔ بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ پل تعمیر ہونے کی وجہ سے کئی دیہات کے لوگوں کو سہولت ہو گی اور انہیں زیادہ فاصلہ طے نہیں کرنا پڑے گا، اس کے ساتھ ساتھ دیگر دیہات کے لوگ بھی یہ پل استعمال کر سکیں گے۔

بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کی زمین بھیواڈھانورہ گاؤں میں ہے اور وہ یہاں خود کھیتی باڑی کرتے ہیں، گاؤں صرف ایک ہے، لیکن اس گاؤں سے شیونا ندی گزرتی ہے، جس کی وجہ سے گاؤں دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ یہ گاؤں جیکواڑی ڈیم کے پیچھے کا پانی ہے، اگر جیکواڑی ڈیم پورا بھر جاتا ہے تو ان کے گاؤں سے گزرنے والی شیونا ندی بھر جاتی ہے اور انہیں اپنے گاؤں جانے کے لیے تھرموکول کا سہارا لینا پڑتا ہے اور تھرموکول سے تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، ساتھ ہی گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو جائے تو اسے بھی اس ندی کے ذریعے تھرموکول پر بٹھا کر ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔

بھیوادھانورا گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو اس بارے میں پچھلے کئی سالوں سے بتایا جا رہا ہے اور اس سال بھیوادھانورا گاؤں کے بچوں کے مسائل کو قانون ساز کونسل میں بھی اٹھایا گیا تھا۔ نائب وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے یقین دہانی کرائی تھی کہ اس معاملے پر جلد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ بھیوادھانورا ضلع پریشد اسکول کے پرنسپل کا کہنا ہے کہ کچھ بچے اس گاؤں کے ہیں لیکن وہ ندی پار کرکے اسکول آتے ہیں کیونکہ ان کے کھیت میں ہی ان کا گھر ہے اس لیے یہ بچے اسکول کے لیے ندی پار کرنے کے لئے تھرموکول پر بیٹھ کر آتے ہیں۔ بچوں کے اسکول آنے کا ایک ہی راستہ ہے لیکن وہ راستہ دور ہونے کی وجہ سے بچے اس قریب کے راستے سے اسکول آتے ہیں۔

مزید پڑھیں: اردو میڈیم اسکولز میں ہیڈ ماسٹرز کا تقرر کرنے کا مطالبہ

تھرموکول پر اسکول جانے والے بچوں کے بارے میں گنگا پور تحصیل کے تحصیلدار سنتوش سونی نے بتایا ہے کہ گاؤں کے لوگوں کو پہلے ہی گھر بنانے کے لیے گاؤں میں جگہ دی گئی تھی، لیکن دریا کے دوسری جانب کچھ لوگوں کی کھیتی کی وجہ سے وہ اور بچے کھیت میں ہی رہتے ہیں اور روزانہ تھرموکول پر بیٹھ کر دریا پار کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی جان کو خطرہ ہے، لیکن یہ معاملہ قانون ساز کونسل میں بھی اٹھایا گیا اور ہم بھی پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت ان لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

Last Updated : Aug 20, 2023, 1:06 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.