مہاراشٹر اور ہریانہ اسمبلی انتخابات کے حیرت انگیز نتائج نے موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے۔
ایگزٹ پول نے عوام کی جانب سے بی جے پی کو ایک بہت ہی مثبت مینڈیٹ دیا۔
مہاراشٹر اور ہریانہ کے 378 اسمبلی حلقوں میں اور 17 ریاستوں کے 51 حلقوں کے ضمنی انتخابات تقریباً عام انتخابات کی طرح نظر آئے۔
اُرپردیش (11) اور گجرات (6) جیسی ریاستوں میں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مضبوط گرفت ہے۔ بی جے پی کو وہاں ملے جلے نتائج ملے ہیں جس کی وجہ سے حزب اختلاف کی جماعتوں نے راحت کی سانس لی۔
تلنگانہ، تمل ناڈو، کیرالہ، پنجاب، مدھیہ پردیش کی ریاستوں میں موجودہ حکومت کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
تقریباً تمام پری پولز میں یہ رجحان پیش کیا گیا تھا کہ مہاراشٹر میں بی جے پی کو کم از کم 145 سیٹیں ملیں گی یعنی واضح اکثریت اور اس کی حلیف جماعت شیوسینا کے ساتھ انتخابات لڑنے پر اس کی طاقت دگنا ہو جائے گی۔
ماہرین نے یہ بھی پیش گوئی کی تھی کہ ہریانہ میں بی جے پی خود 90 میں سے 70 نشستوں سے آگے نکلنے والی ہے لیکن انتخابات کے نتائج بالکل مختلف ہیں۔
بی جے پی ہائی کمان کو کچھ راحت تھی کہ ووٹنگ کے انداز میں حکومت مخالف جذبات نہیں ہیں لیکن حتمی نتائج نے تشویشناک صورتحال پیش کی ہے۔
مہاراشٹر میں اگرچہ حکمراں اتحاد کو واضح اکثریت حاصل ہے لیکن اس سے بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کرنے میں اسے ناکامی ہوئی ہے۔ گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس بار شرد پوار کی سیاسی جماعت این سی پی نے بہتر کامیابی حاصل کی ہے اور اسے 12 نشستوں کا فائدہ ہوا اور کانگریس پارٹی کا اسکور بھی بڑھ گیا۔
حال ہی میں آنے والی جن نائک جنتا پارٹی نامی سیاسی جماعت نے ہریانہ میں 10 نشستیں حاصل کیں اور ایک اہم سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے جس سے بی جے پی کو زبردست دھچکا لگا ہے۔
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں این سی پی اور کانگریس نے سخت مقابلہ کیا جبکہ شو سینا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے آخری لمحات میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا۔
دوسری طرف کانگریس اور این سی پی متحد ہوگئی لیکن وہ اس اتحاد کو آخری دم تک برقرار نہیں رکھ سکی۔
الیکشن کمیشن کے الزامات کا سامنا کرنے کے باوجود اس انتخابات میں این سی پی کے سربراہ شرد پوار نے شیر کی طرح مقابلہ کیا۔
بی جے پی نے ریاست بھر میں دفعہ 370 کی منسوخی، طلاق ثلاثہ پر قانون جیسی باتوں پر توجہ دی لیکن اس نے بڑی تعداد میں کامیابی حاصل نہیں کی کیونکہ مہنگائی کے برے اثرات کو عوام سمجھ رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ریاستوں میں حکمراں جماعتوں کو ماضی میں شاندار کامیابی ملی تھی لیکن اس بار انہیں دیہی علاقوں میں ووٹرز سے سخت اختلاف رائے کا سامنا کرنا پڑا۔
حالیہ پارلیمانی انتخابات میں رائے دہندگان نے حیرت انگیز طور پر ہریانہ میں واضح طور پر مینڈیٹ دے کر بی جے پی کے کھاتے میں تمام 10 نشستیں دی ہیں لیکن موجودہ اسمبلی انتخابات نے بی جے پی کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔
یہ نتائج واضح طور پر کمزور طبقات جیسے جاٹوں، دلتوں اور مسلمانوں کے عدم اطمینان کو ظاہر کرتا ہے جو ریاست کے تقریباً 50 فیصد ووٹرز ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ سیاسی اور حکمراں جماعت بی جے پی کے خلاف ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی اور اس کے مطابق انتخابی رجحانات میں مثبت تبدیلی کا امکان ہوسکتا ہے جب پارٹیاں شہریوں کی عقل مندی کو تسلیم کرتی ہیں جو ریاست اور قوم کی ترجیحات کے لیے ووٹ دیتے ہیں۔
مستحکم حکمراں جماعت اور مضبوط حزب اختلاف کے ساتھ ملک ایک اچھی جمہوریت پر فخر کرسکتا ہے۔
یہ کہنا ضروری ہے کہ دونوں ریاستوں میں حزب اختلاف کی پارٹیوں کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ برسراقتدار جماعتوں کی قوت ارادی کی کمزوری کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ ایک خاموش جمہوری انقلاب ہے جس نے تمام سیاسی جماعتوں کو بہت قیمتی بات سکھائی ہے۔