شیوسینا کے ترجمان اخبار سامنا نے لکھا کہ چینی سامان کا بائیکاٹ اور سودیشی سامان کا نعرہ لگانے، چینی ایپس پر پابندی وغیرہ کو قوم پرستی کے ذریعہ ہوا میں اڑا دیا گیا تھا لیکن بھارت کی وزارت کامرس کی رپورٹ نے ان دعوؤں کی قلعی کھول دی۔
سامنا اخبار میں مزید لکھا گیا کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ بھارت میں صرف کچھ چینی کمپنیوں کو ہی کاروبار کرنے کی اجازت ہے۔ لداخ سرحد پر بھارت اور چین کے مابین تناؤ گذشتہ ہفتے ختم ہوا۔ اب بھارت۔چین تجارتی تعلقات میں بھی کشیدگی کم ہوگئی ہے۔ چین کی کم و بیش25 کمپنیوں کو بھارت میں کاروبار شروع کرنے کی اجازت دینے کی توقع کی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت نے چینی کمپنیوں کے کاروبار اور سرمایہ کاری وغیرہ کے سلسلے میں جو سخت اقدامات کیے تھے اس میں نرمی آئے گی۔
اخبار میں مزید لکھا گیا کہ چینی فوج بھارت میں دراندازی کر رہی لیکن اب بھارتی حکومت کے رویہ میں نرمی دکھائی دے رہی ہے۔ وادی گلوان میں دونوں افواج کے مابین تصادم کی وجہ سے پچھلے ہفتے اس تناظر میں چین اور بھارت کی پسپائی میں دونوں ممالک کا سخت کردار اب مفاہمت سے حل ہوا چاہتا ہے۔
پیچھے ہٹتے ہوئے دونوں فوج کے مابین معاہدہ ہوا اور اس طرح سرحد پر تناؤ کم ہوا ہے۔ بھارت چین سے تجارتی معاملات میں دو قدم آگے بڑھ گیا ہے جب کہ چین دھوکہ باز اور سرکشی اختیار کرنے والا پڑوسی ہے لیکن سرحد سے دو قدم پیچھے ہٹ جانے کے بعد بھی وہ سرکشی کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے گزشتہ برس متعدد چینی ایپس پر بھارت مین پابندی عائد کر دی گئی۔