ETV Bharat / state

سیوا گرام آشرم، وہ گاؤں جو جدوجہد آزادی کا مرکز بن گیا

author img

By

Published : Oct 2, 2021, 6:04 AM IST

برطانیہ کے نمک قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 12 مارچ 1930 کو سابرمتی آشرم سے نکلتے ہوئے مہاتما گاندھی نے فیصلہ کیا تھا کہ جب تک نلک انگریزوں سے آزادی حاصل نہیں کرتا تب تک سابرمتی واپس نہیں جائیں گے۔

آزادی کا امرت مہوتسو
آزادی کا امرت مہوتسو

ڈانڈی یاترا کے لیے سابرمتی آشرم سے نکلتے وقت مہاتما گاندھی نے فیصلہ کیا تھا کہ ملک کو آزادی ملنے تک سابرمتی واپس نہیں جائیں گے۔ ڈانڈی یاترا کے بعد انگریزوں نے گاندھی جی کو قید کر دیا تھا۔ جب مہاتما گاندھی دو سال قید کے بعد باہر آئے تو انہوں نے ایک گاؤں کو آزادی کی جدوجہد کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا۔

سیوا گرام آشرم

گاندھی نے اپنی سول نافرمانی تحریک 78 حامیوں کے ساتھ اس قانون کے خلاف شروع کی جس نے بھاری ٹیکس عائد کیا اور بھارتیوں کو نمک جمع کرنے یا بیچنے سے منع کر دیا تھا۔

جب مہاتما گاندھی جمنا لال بجاج کی درخواست پر پالک واڑی جس کا نام اب وردھا ہے، آئے تو وہ سیواگرام مارگ پر پہلے ستیہ گرہی آشرم میں ٹھہرے۔ جنوری 1935 میں وہ مگن واڑی میں ٹھہرے۔ اس کے ساتھ ہی باپو نے میرابین کے لیے ایک پرسکون جگہ کے انتخاب کی ذمہ داری دی تھی۔

30 اپریل 1936 کو مہاتما گاندھی نے سب سے پہلے سیواگرام آشرم کا دورہ کیا۔

اس سے قبل 17 اپریل کو وہ اُس وقت کے گاؤں شیگاؤں کے سیواگرام کے لوگوں سے ملے تھے۔

جب وہ 30 اپریل کو آئے تو وہاں کوئی جھونپڑی نہیں تھی وہ امرود کے باغ اور ایک کنویں کے قریب جھونپڑی میں ٹھہرے۔

مہاتما گاندھی نے یہاں تقریباً پانچ دن قیام کیا۔

اس کے بعد انہوں نے جمنا لال بجاج سے ایک جھونپڑی بنانے کے لیے کہا۔

باپو چاہتے تھے کہ یہ جھونپڑی ایک عام آدمی کے گھر کی طرح ہو۔

انہوں نے تجویز دی تھی کہ جھونپڑی کی تعمیر پر 100 روپے سے زیادہ لاگت نہیں آنی چاہیے اور جھونپڑی مقامی وسائل اور مقامی مزدوروں کو استعمال کرتے ہوئے بنائی جانی چاہیے۔

اس کے بعد 5 مئی 1936 کو گاندھی جی کھادی یاترا کے لیے روانہ ہوئے۔

وہ 16 جون 1936 کو واپس آئے تو آدی نیواس اس وقت تیار تھا۔

یہ گھر میرابین اور بلونت سنگھ نے مقامی دیہاتیوں کی مدد سے ڈیڑھ ماہ میں بنایا تھا۔

اس کی تعمیر پر 499 روپے لاگت آئی۔

یہ جان کر باپو گاندھی ناراض ہوگئے لیکن جمنا لال بجاج نے انہیں سمجھایا۔

اس کے بعد سنہ 1937 کے آخر میں باپو جھونپڑی میں چلے گئے جہاں میرابین رہتی تھی۔ وہی جھونپڑی آج باپو کُٹی کے نام سے مشہور ہے۔

شروع میں جھونپڑی چھوٹی تھی۔ باپو کے رہنے کے بعد اس میں توسیع کی گئی۔

اس جھونپڑی میں ایک باتھ روم اور ایک میڈیکل سینٹر بنایا گیا تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں جدوجہد آزادی سے متعلق کئی اہم ملاقاتیں ہوتی تھیں۔

سیوا گرام میں کوئی الگ جھونپڑی نہ ہونے کی وجہ سے باپو کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جمنا لال بجاج نے گاندھی جی کے لیے ایک علٰیحدہ جھونپڑی بنوائی۔

مہاتما گاندھی کی استعمال کردہ مختلف اشیاء کو آج بھی سیواگرام میں محفوظ رکھا گیا ہے۔

اس چھوٹی الماری میں باپو کا لالٹین، رامائن، بائبل اور قرآن رکھے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ پیپر ویٹس، علامتی ٹوتھ پِکس، لوٹا، قلم اور پنسل اسٹینڈز، تین بندروں کے مجسمے، سوئی دھاگے، باکس چرخہ، مالا ، لکڑی کی ٹرافی، ماربل پیپر ویٹ وغیرہ محفوظ ہیں۔

اس کے علاوہ 'لارڈ لِن لِتھ گو' نے سیواگرام میں ہاٹ لائن فون نصب کیا تھا تاکہ باپو سے کسی بھی وقت رابطہ کیا جا سکے۔

یہ ہاٹ لائن اہم موضوعات پر بات چیت کے لیے استعمال کی گئی تھی جبکہ ملک بھر میں 'بھارت چھوڑو' کا نعرہ بھی سیواگرام آشرم سے ہی شروع ہوا۔

اس سلسلے میں ایک اہم میٹنگ 9 جولائی 1942 کو سیواگرام میں منعقد ہوئی تھی

اور ملک سے انگریزوں کو نکالنے کی تحریک کو کیا نام دیا جائے اس پر بحث ہوئی۔

مہاتما گاندھی نے سوچا کہ اس تحریک کو ایک سادہ سا نام دیا جائے گا جسے ہر کوئی سمجھ سکے جس کے بعد یوسف مہیر علی نے 'گو بیک'، کوئیٹ انڈیا' کا نعرہ تجویز کیا اور باپو نے اسے قبول کر لیا اور اس طرح 'بھارت چھوڑو' کا نعرہ سامنے آیا۔

اس کے بعد بھی یہ ریکارڈ ہے کہ باپو سیواگرام آشرم میں آئے تھے لیکن جدوجہد آزادی کے دوران یہاں کی پیش رفت انتہائی اہم ہوگئی تھی۔

سیواگرام آشرم آزادی کی جانب ملک کے مجموعی سفر کا مرکز رہا۔

یہ آشرم جس نے برطانوی غلامی سے ملک کی آزادی کا اہم دور دیکھا ہے، آج بھی پورے ملک کے لیے تحریک کا مشعل راہ ہے۔

ڈانڈی یاترا کے لیے سابرمتی آشرم سے نکلتے وقت مہاتما گاندھی نے فیصلہ کیا تھا کہ ملک کو آزادی ملنے تک سابرمتی واپس نہیں جائیں گے۔ ڈانڈی یاترا کے بعد انگریزوں نے گاندھی جی کو قید کر دیا تھا۔ جب مہاتما گاندھی دو سال قید کے بعد باہر آئے تو انہوں نے ایک گاؤں کو آزادی کی جدوجہد کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا۔

سیوا گرام آشرم

گاندھی نے اپنی سول نافرمانی تحریک 78 حامیوں کے ساتھ اس قانون کے خلاف شروع کی جس نے بھاری ٹیکس عائد کیا اور بھارتیوں کو نمک جمع کرنے یا بیچنے سے منع کر دیا تھا۔

جب مہاتما گاندھی جمنا لال بجاج کی درخواست پر پالک واڑی جس کا نام اب وردھا ہے، آئے تو وہ سیواگرام مارگ پر پہلے ستیہ گرہی آشرم میں ٹھہرے۔ جنوری 1935 میں وہ مگن واڑی میں ٹھہرے۔ اس کے ساتھ ہی باپو نے میرابین کے لیے ایک پرسکون جگہ کے انتخاب کی ذمہ داری دی تھی۔

30 اپریل 1936 کو مہاتما گاندھی نے سب سے پہلے سیواگرام آشرم کا دورہ کیا۔

اس سے قبل 17 اپریل کو وہ اُس وقت کے گاؤں شیگاؤں کے سیواگرام کے لوگوں سے ملے تھے۔

جب وہ 30 اپریل کو آئے تو وہاں کوئی جھونپڑی نہیں تھی وہ امرود کے باغ اور ایک کنویں کے قریب جھونپڑی میں ٹھہرے۔

مہاتما گاندھی نے یہاں تقریباً پانچ دن قیام کیا۔

اس کے بعد انہوں نے جمنا لال بجاج سے ایک جھونپڑی بنانے کے لیے کہا۔

باپو چاہتے تھے کہ یہ جھونپڑی ایک عام آدمی کے گھر کی طرح ہو۔

انہوں نے تجویز دی تھی کہ جھونپڑی کی تعمیر پر 100 روپے سے زیادہ لاگت نہیں آنی چاہیے اور جھونپڑی مقامی وسائل اور مقامی مزدوروں کو استعمال کرتے ہوئے بنائی جانی چاہیے۔

اس کے بعد 5 مئی 1936 کو گاندھی جی کھادی یاترا کے لیے روانہ ہوئے۔

وہ 16 جون 1936 کو واپس آئے تو آدی نیواس اس وقت تیار تھا۔

یہ گھر میرابین اور بلونت سنگھ نے مقامی دیہاتیوں کی مدد سے ڈیڑھ ماہ میں بنایا تھا۔

اس کی تعمیر پر 499 روپے لاگت آئی۔

یہ جان کر باپو گاندھی ناراض ہوگئے لیکن جمنا لال بجاج نے انہیں سمجھایا۔

اس کے بعد سنہ 1937 کے آخر میں باپو جھونپڑی میں چلے گئے جہاں میرابین رہتی تھی۔ وہی جھونپڑی آج باپو کُٹی کے نام سے مشہور ہے۔

شروع میں جھونپڑی چھوٹی تھی۔ باپو کے رہنے کے بعد اس میں توسیع کی گئی۔

اس جھونپڑی میں ایک باتھ روم اور ایک میڈیکل سینٹر بنایا گیا تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں جدوجہد آزادی سے متعلق کئی اہم ملاقاتیں ہوتی تھیں۔

سیوا گرام میں کوئی الگ جھونپڑی نہ ہونے کی وجہ سے باپو کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جمنا لال بجاج نے گاندھی جی کے لیے ایک علٰیحدہ جھونپڑی بنوائی۔

مہاتما گاندھی کی استعمال کردہ مختلف اشیاء کو آج بھی سیواگرام میں محفوظ رکھا گیا ہے۔

اس چھوٹی الماری میں باپو کا لالٹین، رامائن، بائبل اور قرآن رکھے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ پیپر ویٹس، علامتی ٹوتھ پِکس، لوٹا، قلم اور پنسل اسٹینڈز، تین بندروں کے مجسمے، سوئی دھاگے، باکس چرخہ، مالا ، لکڑی کی ٹرافی، ماربل پیپر ویٹ وغیرہ محفوظ ہیں۔

اس کے علاوہ 'لارڈ لِن لِتھ گو' نے سیواگرام میں ہاٹ لائن فون نصب کیا تھا تاکہ باپو سے کسی بھی وقت رابطہ کیا جا سکے۔

یہ ہاٹ لائن اہم موضوعات پر بات چیت کے لیے استعمال کی گئی تھی جبکہ ملک بھر میں 'بھارت چھوڑو' کا نعرہ بھی سیواگرام آشرم سے ہی شروع ہوا۔

اس سلسلے میں ایک اہم میٹنگ 9 جولائی 1942 کو سیواگرام میں منعقد ہوئی تھی

اور ملک سے انگریزوں کو نکالنے کی تحریک کو کیا نام دیا جائے اس پر بحث ہوئی۔

مہاتما گاندھی نے سوچا کہ اس تحریک کو ایک سادہ سا نام دیا جائے گا جسے ہر کوئی سمجھ سکے جس کے بعد یوسف مہیر علی نے 'گو بیک'، کوئیٹ انڈیا' کا نعرہ تجویز کیا اور باپو نے اسے قبول کر لیا اور اس طرح 'بھارت چھوڑو' کا نعرہ سامنے آیا۔

اس کے بعد بھی یہ ریکارڈ ہے کہ باپو سیواگرام آشرم میں آئے تھے لیکن جدوجہد آزادی کے دوران یہاں کی پیش رفت انتہائی اہم ہوگئی تھی۔

سیواگرام آشرم آزادی کی جانب ملک کے مجموعی سفر کا مرکز رہا۔

یہ آشرم جس نے برطانوی غلامی سے ملک کی آزادی کا اہم دور دیکھا ہے، آج بھی پورے ملک کے لیے تحریک کا مشعل راہ ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.