کوئی بھی ادب پارہ حرف آخر نہیں ہوتا، چاہے وہ ادب کی کوئی بھی صنف ہو اس کی تشریح اور توضیح کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ اس لیے ریسرچ اسکالرس کو اس زاویے سے ادبی اصناف کا جائزہ لینا چاہیے۔ Research Scholars Should Look at Literary Genres ان خیالات کا اظہار معروف نقاد و دانشور پروفیسر عتیق اللہ نے کیا۔
وہ اورنگ آباد میں ’’ ادب میں قاری اور قرات کا مسئلہ ‘‘عنوان پر منعقدہ دو روزہ قومی سمینار سے خطاب کررہے تھے۔ اس سمینار کی صدارت ڈاکٹر ارتکاز افضل نے کی۔
اردو ادب کی گہرائی، گیرائی Depth of Urdu Literature اور وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں دنیا کے جدید ترین اسلوب اور رجحانات کو سمولینے کی گنجائش ہے، اچھوتے عنوانات اور موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی راہ نکالی جاتی ہے۔
ایسی ہی ایک کوشش اورنگ آباد میں ہوئی ، این سی پی یو ایل اور کریسنٹ ایجوکیشن سوسائٹی کے اشتراک سے ادب میں قاری اور قرات کا مسئلہ عنوان سے دو روزہ قومی سمینار ہوا اس سمینار میں ملک کے مختلف شہروں سے ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی اور اس اچھوتے عنوان پر اپنے منفرد انداز میں روشنی ڈالی۔
اس سمینار میں ادب کی مختلف اصناف اور ان کی قرات کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی گئی، ڈاکٹر ارتکاز افضل نے بدلتے تقاضوں کے تحت ادب میں نئے رجحانات کا اپنے تجربے کی روشنی میں نقشہ کھینچا اور کیسے ادب کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے اس پر روشنی ڈالی۔ اس دو روزہ سمینار میں کم وبیش سولہ مقالے پڑھے گئے۔
دو روزہ سمینار کے افتتاحی اجلاس میں خان مقیم خان نے این سی پی یو ایل کی ملک گیر کاوشوں اور اردو کے فروغ میں کونسل کے کلیدی رول پر بھی روشنی ڈالی۔ اس موقع پر مہمانان کے ہاتھوں ڈاکٹر ریحانہ کی تصنیف’’ جدید اردو نظم ‘‘ کا اجرا عمل میں آیا ، سمینار میں محبان اردو، باذوق سامعین اور ادیب و دانشور کثیر تعداد میں موجود تھے۔