مالیگاؤں: رنگین ساڑیوں کا چلن سیکڑوں سال پراناہے اور یہ مختلف کپڑوں میں دستیاب ہوتی ہیں جیسے کپاس، شفان اور ریشم، بنارسی ناموں سے مشہور ہے۔ ساڑھی ایک ایسا پہناوا ہے جب سے یہ وجود میں آیا ہے جس کا دور کبھی ختم نہیں ہوا، لیکن موجودہ حالات میں ساڑھی کی صنعت اور کاروبار زوال پذیر ہوتا جارہا ہے۔ مالیگاؤں کے بنکر حاجی محمد غفران کے مطابق ساڑیوں کی مانگ اور قیمت میں کمی کی وجہ سے شہر میں 5 لاکھ ساڑیوں کا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے، جس کے نتیجے میں 30 ہزار مرد و خواتین ملازمین بے روزگار ہوگئے ہیں۔
مہاراشٹر کا صنعتی شہر مالیگاؤں اس وقت کساد بازاری سے گزر رہا ہے۔ شہر کی واحد روزگار فراہم کرنے والی پارچہ بافی صنعت مسلسل مندی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ ویسے تو اب مالیگاؤں میں کچھ فی صد ہی رنگین ساڑیوں کے پاورلوم باقی رہ گئے ہیں۔ لیکن اس صنعت سے اب بھی شہر کے ہزاروں مرد اور خاص طور پر خواتین وابستہ ہے۔ اور کچھ بنکر مسلسل مندی کے سبب اس کاروبار کو چھوڑ کر دوسرے کاروباروں کی جانب متوجہ ہورہے ہیں۔
اس تعلق سے بنکر اور تاجر حاجی محمد غفران نے بتایا کہ یہاں کے بنکر اور پاورلوم مزدور گزشتہ چار ماہ سے مندی جھیل رہے ہیں۔ ساڑیوں کی طلب اور قیمت میں کمی کے سبب لاکھوں رنگین ساڑیاں گودام اور دکانوں میں جمع ہوتی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مالیگاؤں میں تیار ہونے والی ساڑیوں کی مانگ مہاراشٹر کی بہ نسبت دیگر ریاستوں میں زیادہ ہوتی ہے اور ان ساڑیوں کا استعمال زیادہ تر غریب طبقہ اور کسان کرتے ہیں۔
حاجی محمد غفران نے بتایا کہ کسان کی تیار کردہ اشیاء اچھی قیمتوں میں فروخت نہیں ہونے کی وجہ سے ساڑیاں بھی فروخت ہونا بند ہوگئی ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں حکومت نظرثانی کرے اور کسان اور ہزاروں بے روزگار مزدوروں کو مالی امداد فراہم کی جائے تاکہ رنگین ساڑیوں کی روایتی صنعت اور کاروبار دوبارہ سے بحال کیا جاسکے۔
ساڑیوں کو تیار کرنے والے مزدور نے کہا کہ رمضان کا مبارک مہینہ جاری ہے اور ایسے میں یہ مندی ہماری زندگیوں کو متاثر کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ آئندہ ماہ اپریل سے ساڑیوں کے کاروبار میں کچھ حد تک تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہے کیونکہ ہندو مذہب کے مختلف تہوار اور خاص طور پر شادیوں کا سیزن شروع ہونے والا ہے جس میں ساڑیوں کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہیں۔