ریاست مہاراشٹر میں مہاراشٹر نونرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے نے مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے ان کی رہائش گاہ گورنر ہاوس میں ملاقات کی۔ بجلی اور دودھ کی قیمتوں کے معاملے پر یہ ملاقات ہوئی۔ جبکہ مندر کھولنے کے معاملے پر گورنر سے کوئی بات نہیں کی۔ راج ٹھاکرے اور ان کے بیٹے امت ٹھاکرے ایک وفد کے ساتھ ملاقات کرنے گئے تھے۔
تقریبا 10 سے 15 منٹ تک جاری رہنے والی اس میٹنگ کے بعد راج ٹھاکرے نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کے بلوں کی شکایات بڑی تعداد میں ان کے پاس آرہی تھیں۔
صارفین کا کہنا ہے کہ کمپنیوں نے من مانے بل ان کو بھیجے ہیں۔ اس معاملے میں اڈانی اور بی ایس ٹی کے لوگوں سے ملاقات کی۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم بجلی کے بل کو کم کرسکتے ہیں لیکن ایم ای آر سی کو ہمیں منظوری دینی چاہیے۔
پارٹی کے ایک وفد نے جاکر ایم ای آر سی کے لوگوں سے ملاقات کی۔ اسے تحریری طور پر ایک خط موصول ہوا۔ کمپنیاں بجلی کے بلوں کو کم کرنے کے بارے میں فیصلہ کرسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان پر ظلم نہیں کر رہے ہیں۔ راج ٹھاکرے نے کہا کہ ایک طرف کمپنیاں ایم ای آر سی کی طرف انگلیوں کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ تو دوسری طرف ایم ای آر سی یہ نہیں کہہ رہی ہے کہ ہم مظلوم نہیں ہیں۔
راج ٹھاکرے نے مز ید کہا کہ اس موضوع پر وزیر توانائی نتن راوت سے بھی بات کی ہے۔ انہوں نے جلد ہی اس معاملے میں فیصلہ لینے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔
حکومت بھی جانتی ہے کہ پہلے جہاں دو ہزار روپے تک آنے والا بل اب 10 ہزار روپے آرہے ہیں۔ جہاں صارفین پانچ ہزار بل ادا کرتے تھے وہیں اب 25 ہزار روپے کمپنیاں بجلی کا بل بھیج رہی ہیں۔ اگر ریاستی حکومت یہ جانتی ہے تو پھر اس پر کارروائی کیوں نہیں کی جارہی ہے؟
راج ٹھاکرے نے گورنر سے دودھ تیار کرنے والے کاشتکاروں کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ دودھ تیار کرنے والے چھوٹے کاشتکاروں کو اب بھی فی لیٹر 17 سے 18 روپے قیمت مل رہی ہے۔ جبکہ بڑے ذخیرہ کرنے والے مراکز اور ایسےکسان جو بڑے دودھ جمع کرتے ہیں ان کو بڑی رقم مل رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں غریب کسان بہت پریشان ہیں۔ لہذا، انہیں ایک لیٹر میں کم از کم 27 سے 28 روپے ملیں۔ حکومت کو اس کے لیے کوشش کرنی چاہئے۔
واضح رہے کہ گورنر نے تفصیلی گفتگو سننے کے بعد راج ٹھاکرے کو این سی پی کے رہنما شرد پوار سے ملنے کا مشورہ دیا۔ جس کے بعد ٹھاکرے نے کہا کہ میں بہت جلد پوار صاحب سے بھی ملاقات کروں گا۔ اگر وقت ملا تو میں وزیر اعلی سے بھی ملوں گا۔
ایسا نہیں ہے کہ وہ اس موضوع کو نہیں جانتے ہیں۔ بے شک اگر انھیں کچھ بھی بتایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ کام جاری ہے، لیکن اس پر کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔ بہت سے ملازمین ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ وہ کس طرح بل ادا کریں گے؟
بظاہر چھوٹے سے فیصلے کے لیے اتنے دن لگانے کا کیا مطلب ہے؟ میں مہا وکاس آگھاڑی حکومت سےگزارش کرتا ہوں کہ فیصلہ جلد لیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ معاملات کس حد تک جائیں گے کیونکہ حکومت اور گورنر بہت قریب ہیں، لیکن وہ حکومت کو یہ کہانی سنائیں گے۔