ایک ہی کپڑے کے دھاگوں سے پھٹے ہوئے کپڑے کو سی کر نقص دور کرنے کا فن، فنِ رفوگری Fixing Defects in Clothes by Weaving Cloth کہلاتا ہے۔ اس فن میں مہارت رکھنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے یا یہ کہیئے کہ یہ فن معدوم ہوتا جا رہا ہے۔
اسی فن میں مہارت رکھنے والے کاریگر مہاراشٹر کے شہر مالیگاؤں میں ملاباڑہ روڈ پر برسوں سےاپنے دکان چلا رہے ہیں جن سے بڑی تعداد میں لوگ مستفیض ہو رہے ہیں۔
مالیگاؤں میں ہزار کھولی علاقے سے تعلق رکھنے والے 50 برس کے خوش اخلاق، ملنسار محمد ایاز کپڑوں کو رفو کرنے میں ماہر و استاد مانے جاتے ہیں۔
محمد ایاز نے مالیگاؤں اے ٹی ٹی ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج سے بارہویں جماعت کی تعلیم مکمل کی۔ بعدازاں انہوں نے اورنگ آباد کے معروف فزیکل کالج سے بی پی ایڈ اور ایم پی ایڈ کی ڈگری حاصل کی ہے۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کے حصول کے لیے شہر کی متعدد اسکولوں میں بہت کوششوں کے بعد بھی نوکری نہ ملنے پر وہ فن رفوگری کی جانب راغب ہوگئے۔
اس تعلق سے محمد ایاز نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ان کے ماموں ممبئی میں رفوگری کا کام کیا کرتے تھے اور انہوں نے رفوگری کا ہنر بڑے بھائی محمد ریاض کو سکھایا اور بڑے بھائی نے سنہ 1977 میں ملاباڑہ مسجد کے شاپنگ سینٹر میں چھوٹی سی دکان 'نیو بامبے رفوگر' کے نام سے شروع کی۔
محمد ایاز نے بتایا کہ 'شروعات کے دنوں میں شہر کے لوگ رفوگری سے واقف نہیں تھے لیکن پھر ان کے بڑے بھائی نے آہستہ آہستہ لوگوں کو رفوگری کے فن سے متعارف کروایا اور آج ان کی دکان کو 43 برس مکمل ہوچکے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں محمد ایاز نے بتایا کہ رفو کی مختلف اقسام ہیں لیکن مالیگاؤں میں عام رفو کیا جاتا ہے جس میں کپڑے جہاں سے پھٹے ہوں اسے سی دیا جاتا ہے۔ رفو مجازی وغیرہ میں تانا بانا بہت ضروری ہوتا ہے تانا اوپر سے نیچے آنے والے دھاگے اور بانا سیدھے دھاگے کو کہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کام میں محنت زیادہ لیکن اجرت کم اس لیے زیادہ تر لوگ اس طرف آنے کے لیے تیار نہیں ہیں جب کہ نئی نسل میں مستقل مزاجی نہیں ہے اور وہ نیا ہنر سیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
محمد ایاز کا کہنا ہے کہ یہ حلال کمائی کا بہترین ذریعہ ہے اس لیے اس کام کو چھوڑنے کا من نہیں ہوتا۔ اب دور جدید تک آنے میں رفو کا سفر بھی ترقی اور جدت کے مراحل طے کررہا ہے۔