ممبئی ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے اس معاملے میں جمعیت علماء کی جانب سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ مہیر دیسائی کو حکم دیا کہ ممبئی پولیس کمشنر کے جواب کی روشنی میں وہ دو ہفتہ کے بعد بحث کریں اور اپنی سماعت ملتوی کردی۔
ایڈوکیٹ مہیر دیسائی کی گزارش پر عدالت نے ممبئی پولس کمشنر کو حکم دیا کہ وہ اگلی سماعت سے قبل ہی مدعی کے وکیل کو جواب(رپلائے) کی نقول فراہم کریں تاکہ وہ بحث کے لیے تیاری کرسکیں۔
خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث اسسٹنٹ پولیس انسپکٹر سچن وازے، پولیس کانسٹبل راجندر تیوار، سنیل دیسائی اور راجا را م نکم کی ملازمت پر دوبارہ بحالی کو چیلنج کیا گیا ہے۔
حالانکہ ممبئی پولیس کمشنر کی آف سے جاری اخباری بیانات سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ وہ چاروں پولیس اہلکاروں کی ملازمت پر بحالی کو توہین عدالت نہیں سمجھ رہے ہیں بلکہ انہوں نے یہ جواز پیش کیا ہیکہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ پولیس اہلکاروں کو دوبارہ ملازمت پر نہیں لیا جاسکتا۔
گزشتہ 23 جون کو جمعیت علماء مہاراشٹر نے خواجہ یونس کی والدہ کی جانب سے خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث چار پولیس اہلکاروں کو ملازمت پر بحال کرنے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی پٹیشن داخل کی تھی کیونکہ سات دن گزر جانے کے باوجود ممبئی پولیس کمشنر نے توہین عدالت کی نوٹس کا جواب نہیں دیا تھا۔
توہین عدالت کی پٹیشن میں پولیس کمشنر آف ممبئی پرم ویر سنگھ، پرنسپل سکریٹری ہوم ڈپارٹمنٹ امیتابھ گپتا، اسٹیٹ سی آئی ڈی، روویو کمیٹی اور حکومت مہاراشٹر کو توہین عدالت کا مرتکب بتایا گیا ہے اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ چاروں پولیس اہلکاروں کو نوکری پربحال کرنے کے لیے خواجہ یونس کی والدہ کو ایک،لاکھ روپے معاوضہ دیں اور پولیس والوں کو فوراً نوکری سے معطل کریں۔
واضح رہے کہ23 دسمبر 2002 کو خواجہ یونس کو 2، دسمبر 2002 کو گھاٹکوپر میں ہونے والے بم دھماکہ کے الزام میں گرفتارکیا تھا جس کے بعد سچن وازے نے دعوی کیا تھا کہ خواجہ یونس پولیس تحویل سے اس وقت فرار ہوگیا جب اسے تفتیش کے لیے اورنگ آبا دلے جایا جارہا تھا حالانکہ سی آئی ڈٖی نے سچن وازے کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے معاملے کی تفتیش کے بعد سچن وازے سمیت دیگر تین پولیس اہلکاروں کے خلاف خواجہ یونس کو قتل کرنے کا مقدمہ قائم کیا تھا جو فاسٹ ٹریک عدالت میں زیر سماعت ہے۔