ممبئی سے متصل علاقہ ممبرا میں ہجوم کو دیکھ کر حکومت نے بڑی گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے ممبرا بائی پاس تعمیر کیا۔ یہ بائی پاس ان دنوں وصولی کو لیکر موضوع بحث ہے۔
ممبرا بائی پاس سے آنے جانے والی گاڑیوں سے 800 روپے فی گاڑی کے وصولی کی جاتی ہے اور یہی نہیں اس وصولی کی رسید بھی دی جاتی ہے۔ ہریانہ کے حصار کے رہنے والے محمد شریف جو کہ پیشے سے بڑی گاڑی کا ڈرائیور ہیں۔ ممبئی سے گزرنے کے بعد محمد شریف نے بتایا کہ ان سے بھی ٹووینگ کے نام پر 800 وصولے گئے۔
محمد شریف کا کہنا ہے کہ انکار کرنے پر ٹریفک پولیس اور ان کے ساتھ موجود کچھ لوگ بری طرح سے پیٹتے ہیں۔ اس خوف کی وجہ سے پیسے دینے پڑتے ہیں۔ یہ کہانی کم و بیش ہر اس بڑی گاڑی چلانے والے کی ہے۔
گجرات، راجستھان، بنگلور، اور کرناٹک جیسی ریاستوں کی بڑی گاڑیوں کا گزر اس بائی پاس سے ہوتا ہے، دن میں یہاں ٹریفک پولیس یا دوسرے کسی وصولی گینگ کا دور دور تک اتا پتا نہیں ہوتا لیکن رات ہوتے ہی اس شاہراہ پر وصولی گینگ وہ بھی پولیس پروٹیکشن کے ساتھ نمودار ہوتی ہے۔
روزانہ اس علاقے سے 400 سے زائد بڑی گاڑیوں کا گزر ہوتا ہے، کچھ لوگوں نے جب ان وصولی کرنے والوں سے سوال کیا تو یہ بھاگ کھڑے ہوئے۔
ہم نے اس بار ے میں ممبئی کے سبکدوش اے سی پی راجیندر تریویدی سے بات کی۔ انہوں نے اس بارے میں سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ وصولی یہ کھیل کیسے شروع ہوتا ہے۔
سابق اے سی پی تریویدی نے بتایا کہ وصولی کے اس کھیل میں ادنی سے اعلیٰ شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وصولی کا یہ کالا کاروبار اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔
ممبئی یا ممبئی سے متصل علاقوں میں وصولی کی ان وارداتوں سے نہ صرف محکمہ ٹرافک پولیس بلکہ دوسری ریاستوں میں مہاراشٹر ریاست کی بھی بدنامی ہوتی ہے۔ اس بارے میں ریاستی حکومت کو سوچنے کی ضرورت ہے۔