ناگون: ہیئر ٹانک، آئل، شیمپو اور ہیئر ڈائی کی تیز مہک اور الیکٹرک ریزر کی گونجتی آواز کے درمیان، یہاں کچھ انوکھی چیز ہے جو گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ جہاں شیلف میں ضروری ٹانک اور بالوں کے تیل، مساج کے تیل، قینچی اور استرا وغیرہ رکھے ہوئے ہیں، وہیں ان میں آسامی بیسٹ سیلرز سے لے کر بچوں کی پسندیدہ کتابیں بھی رکھی گئی ہیں، جو اسے لائبریری اور ہیئر کٹنگ سیلون کا مرکب بناتی ہیں۔
ناگون، مورے گاؤں اسٹیٹ ہائی وے پر ایک پُرسکون مقام پر واقع ایک سیلون ہے جس کا نام چِکُون محل (جس کا مطلب آسامی میں صاف ستھرا محل) ہے۔ یہ سیلون نہ صرف سر کو سنوارتا ہے بلکہ یہاں دماغ کو کتابوں کی دنیا میں ڈوب جانے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ نائی کی دکان میں چلنے والی تیز موسیقی کی جگہ کتابوں کے صفحات پلٹنے کی میٹھی آواز نے لے لی ہے۔ اس لائبریری کی خاص بات یہ ہے کہ، چند خوش قسمت اپنی آدھی پڑھی ہوئی کتابیں وقت پر واپس کرنے کے وعدے کے ساتھ گھر لے جا سکتے ہیں۔
چِکُون محل، وسطی آسام کے ناگون ضلع کے تحت کھلوئی گاؤں علاقے میں واقع یہ منفرد سیلون ہے، جو اپنے گاہکوں کو ان کی باری آنے تک ادب کی دنیا میں لے جاتا ہے اور ایک انوکھی خوشی فراہم کر رہا ہے۔
چِکُون محل کے مالک دیپ کمار بوردولوئی نے بتایا کہ مجھے کتابیں پڑھنا پسند ہے۔ میں نے یہ سیلون 2016 میں شروع کیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ، یہاں زیادہ سیلون نہیں ہیں اور میں لوگوں کو اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ چونکہ مجھے کتابیں پڑھنا پسند ہے اس لیے میرے ذہن میں خیال آیا، کیوں نہ کچھ کتابیں یہاں رکھ دی جائیں تاکہ لوگ اپنی باری آنے تک ان کا مطالعہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ جب گاہک نہیں ہوتے تو میں بھی کتابیں پڑھ سکتا ہوں۔
ناگون ضلع کے رہدلا گاؤں کے رہنے والے دیپ بوردولوئی کو جلمل بوردولوئی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ دیپ بوردولوئی ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہے جس نے سیلون چلا کر خود انحصاری کا خواب دیکھا۔ دیپ نے کہا کہ، میں جانتا ہوں ہمارے علاقے کے لوگ بھی پڑھنے کی عادت کھو رہے ہیں۔ میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر میں یہاں کچھ کتابیں رکھوں تو اس سے نہ صرف انتظار کرنے والے گاہکوں کو مدد ملے گی بلکہ کتابیں پڑھنے میں دلچسپی رکھنے والوں کو بھی مدد ملے گی۔ آج کل کتابیں بھی مہنگی ہیں اور ہمارے علاقے میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو انہیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
اس لیے میری دکان انہیں مفت کتابیں پڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ بوردولوئی کے کلیکشن میں ریٹا چودھری کی لکھی ہوئی مکم ، لکشمی نندن بورا کی لکھی ہوئی گونگا سلونیر پاکھی ، لکشمی ناتھ بیزبروا کی لکھی ہوئی برہی ایئر سادھو، دھروبجیوتی بورا کی لکھی ہوئی انر لینڈ سکیپ، انورادھا شرما پجاری کی لکھی ہوئی میرنگ سمیت کتنی مشہور کتابیں شامل ہیں۔ بردولوئی نے کہا کہ مجھے لوگوں کی طرف سے اچھا رسپانس ملا ہے، خاص طور پر یہاں آنے والے نوجوان اکثر بال کٹوانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے پڑھنے میں مگن نظر آتے ہیں۔
چِکُون محل کے ایک گاہک راہل بھرالی نے بتایا کہ، میں پچھلے کئی سالوں سے یہاں بال کٹوانے کے لیے آ رہا ہوں۔ باردولوئی کی جانب سے اٹھایا گیا یہ قدم انتہائی خوش آئند ہے اور یہ سیلون ہمارے لیے ایک لائبریری کی مانند ہے۔ ہمارے گاؤں میں ایک پبلک لائبریری ہوا کرتی تھی، لیکن وہاں کتابیں زیادہ نہیں ہیں۔ میں جب بھی یہاں آتا ہوں اور لمبی قطار دیکھتا ہوں تو پڑھنے کے لیے کچھ اٹھا لیتا ہوں۔
ایک مقامی طالب علم پرناب ڈیکا نے کہا کہ، ہم یہاں باقاعدگی سے آتے ہیں۔ جب بھی ہمیں یہاں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے تو ہم کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ، جلمل بوردولوئی کا یہ ایک خوش آئند قدم ہے کیونکہ بیشتر سرکاری دیہی لائبریریوں کی حالت قابل رحم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: