ممبئی: ایڈووکیٹ عبدالواحد شیخ نے بتایا کہ نہ صرف ویڈیو کانفرنسنگ بلکہ ان کے وکیل یا اہل خانہ سے بھی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعه انھیں بات کرنے کی سہولت جیل حکام نہیں دے رہیں۔ ریاستی حکومت اور جیل حکام ان قیدیوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ Mumbai Train Blasts Convicts Not Allowed Video Conference
انہوں نے کہا کہ سُپریم کورٹ نے 2018 میں امتیاز رمضان خان کیس کی شنوائی کے دوران حکم جاری کیا تھا کہ سارے قیدی خاص طور پر سزا یافتہ قیدیوں کو ان کے وکیل سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعه بات کرنے کی اجازت دی جائے لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ اس معاملے میں ریاستی حکومت نے انھیں بھی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے وکیل سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعه بات کر سکیں یا اپنے اہل خانہ سے بات کر سکیں۔ یہ باتیں کورٹ کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ امتیاز رمضان شیخ کو قتل کے ایک معاملے میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
سُپریم کورٹ نے اس کے بعد ایک عام حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر ریاست کے ملزمین اور سزا یافتہ قیدیوں کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریه بات چیت کی سہولت دی جائے۔ ایڈوکیٹ واحد شیخ کا کہنا ہے کہ یہ سیدھے سیدھے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے اور اس کا نشانہ ایسے لوگ بن رہے ہیں جو طویل عرصے سے جیل میں قید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'کئی معاملوں میں ملزمین اور قیدیوں کے وکیل دور دراز علاقے میں رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر ویڈیو کانفرنسنگ جس کی اجازت کورٹ نے دے رکھی ہے تو جیل حکام یا ریاستی حکومت کو اس پر عمل کرنا چاہیے تاکہ قیدی سے اُن کے وکیل بات چیت کر کے اُن کے کیس کی پیروی بہتر طریقے سے کر سکیں۔