ممبئی کی جامع مسجد ان دونوں ہر شخص کے لئے توجہ کا مرکز ہے نہ صرف عام لوگ بلکہ خاص لوگ بھی اسے دیکھنے کے لئے آرہے ہیں۔ آج ممبئی کی میئر کشوری پیڈنیکر نے بھی جامع مسجد کا دورہ کیا ۔لیکن وہ وقت مقرر سے دو گھنٹے تاخیر سے پہنچی، جس سے مسجد انتظامیہ کو اُن کے لئے دو گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا۔حالانکہ بی ایم سی کا صدر دفتر جامع مسجد ممبئی سے محض 2 منٹ کے فاصلے پر واقع ہے، جبکہ کشوری پیڈنیکر کے سرکاری بنگلے سے یہاں آنے میں محض 10 منٹ ہی درکار ہوتے ہیں۔
مسجد کے دورے کے لیے ان کا مقررہ وقت تین بجے تھا لیکن وہ تقریبا ساڑھے پانچ بجے پہنچی۔ مسجد پہنچنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے مسجد میں موجود دو سو سال پرانا قدرتی تالاب کا جائزہ لیا اور مسجد کے صحن میں موجود کتب خانے میں موجود قدیم مکتوب پر نظر ثانی کی۔
اُنہوں نے کتب خانے اور دارالافتاء میں موجود مفتیان کرام سے بات چیت کی۔ اس موقع پر انہوں نے دارالافتاء میں مسلمانوں کے مسائل شرعی اعتبار سے حل کیے جانے کے بارے میں بھی بات چیت کی۔
انہوں نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اتنی پرانی اور خوبصورت مسجد ممبئی میں ہے، اس بات کا اُنہیں اندازہ ہی نہیں تھا۔ جنوبی ممبئی کے اس آبی ذخیرے پر تعمیر یہ مسجد حقیقت میں ایک نایاب مسجد ہے۔ یہاں کا پانی میٹھا ہے اور اس پانی کا استعمال دوسری ضرورت کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسجد کے تعلق سے محکمہ بی ایم سی سے کسی بھی طرح کی تعاون کی ضرورت ہے تو میں اس کے لیے پیش پیش رہوں گی۔
مزید پڑھیں:مضمون نویسی مقابلوں میں درجنوں بچوں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا
اُنہوں نے مزید کہا کہ اس مسجد کی تعمیر کوکنی مسلمانوں نے کی تھی اور میں بھی کوکن سے ہوں، لیکن مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ جس طرح سے ممبئی میں پرانی مندریں ہیں اسی طرح سے مسجد و درگاہیں بھی موجود ہیں، جو کافی قدیم ہیں۔
انگریزی حکومت کے دوران ممبئی کے کوکنی مسلمانوں نے سنہ 1775 میں اس مسجد کی تعمیراتی کام کو شروع کیا تھا اور یہ تعمیراتی کام 27 برس تک چلتا رہا۔ اس مسجد میں 8 ہزار افراد بیک وقت نماز پڑھ سکتے ہیں جبکہ 10 ہزار سے زائد لوگوں کی گنجائش ہے۔
جامع مسجد کے مفتی اشفاق قاضی نے بتایا کہ محمد علی امین روگھے نے اپنی دختر کی یاد میں اس کی تعمیر کرائی تھی ۔مسجد کے اندر کے حصے کو بنا کسی سہارے یا ستون کے بنایا گیا ہے۔ یہاں خالص سونے کی پالش کی گئی ہے۔ اتنے بڑے حصے کو بغیر کسی ستون کے سہارے کے دیکھ کر تعجب ہوتا ہے۔
پوری مسجد کے اس حصے میں نیچے کسی طرح کے ستون نہیں ہیں، لیکن اسے اوپر کی طرف سے چھت کو لکڑیوں نے اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔ ایک طرح سے قینچی نما کے اس فن تعمیر سے چھت کو لکڑیوں کے پنجوں میں پھنسا دیا گیا ہے، جو کہ طویل عرصے سے اسی طرح سے مضبوط اور مستحکم ہے۔ اس حصے میں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔