ETV Bharat / state

Mumbai and Maharashtra ignored in Budget مرکزی بجٹ میں ممبئی اور مہاراشٹر کو نظر انداز کیا گیا

مرکزی بجٹ میں ممبئی اور مہاراشٹر یکسر کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ عارف نسیم خان، ابو عاصم ، نانا پٹولے نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ میں اقلیتیں نظرانداز کی گئی ہیں، یہ انتخابی بجٹ ہے۔ بجٹ سے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہوا، اس بجٹ سے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ Mumbai and Maharashtra were ignored in the Union Budget

Mumbai and Maharashtra ignored in Budget
Mumbai and Maharashtra ignored in Budget
author img

By

Published : Feb 2, 2023, 8:06 AM IST

ممبئی: آج پارلیمنٹ میں مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے اپنا 5 واں مرکزی بجٹ اور 2019 میں برسراقتدار آنے والی مودی 2.0 حکومت کا آخری مکمل بجٹ پیش کیا۔ وزیر خزانہ نے ذاتی انکم ٹیکس کی حد بڑھانے سے لے کر کئی اعلانات کیے 5 لاکھ سے 7 لاکھ روپے تک سرمایہ کاری میں 33 فیصد کا زبردست اضافہ 10,00,000 کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ جب کہ اقلیتی امور کی وزارت کو 24 2023- کے مرکزی بجٹ میں 3097.60 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو پچھلے مالی سال کے نظر ثانی شدہ اعداد و شمار سے 484.94 کروڑ روپے زیادہ ہیں۔ وزیر خزانہ نرملا سیتارامن کے ذریعہ 2023-24 کے پیش کردہ بجٹ میں، مرکز نے اقلیتی امور کی وزارت کو 3,097.60 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی۔ مالی سال 2022-23 میں اقلیتی امور کی وزارت کا بجٹ تخمینہ 5,020.50 کروڑ روپے تھا اور بعد میں نظر ثانی شدہ مختص رقم 2,612.66 کروڑ روپے تھی۔ وزارت کو مجوزہ مختص میں سے 433 کروڑ روپے پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم کے لیے ہیں اور 1,065 کروڑ روپے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کے لیے ہیں۔

بجٹ میں اقلیتیں نظرانداز کی گئی ہیں

مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی (ایم پی سی سی) کے کارگزار صدر عارف نسیم خان نے اسے ایک انتخابی بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پورے بھٹ میں 25، سال کا وہیژن پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بجٹ میں یہی بتایا گیا کہ 2044، میں ایسی ترقی ہوگی یہ کہنے کی کوشش ہے، کُل ملاکر بجٹ آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے صدر اور ایم ایل اے ابو عاصم اعظمی نے بھی اسے چناوی بجے قرار دیا ہے اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اقلیتوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے گزشتہ نو سال میں بے روزگاری، مہنگائی اور پسماندہ طبقات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

بجٹ پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اے آئی ایم آئی ایم ایم پی امتیاز جلیل نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کے انکم ٹیکس دہندگان کو تھوڑا سا ریلیف دے کر حکومت اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں بڑا فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ امسال ہوئے اسمبلی انتخابات میں ہماچل پردیش میں بی جے پی کی شکست میں تنخواہ دار طبقے کا اہم کردار تھا۔ واضح رہے کہ چونکہ یہ حکومت کا آخری مکمل بجٹ ہوگا کیونکہ اگلے سال ایف ایم مئی 2024 میں ہونے والے انتخابات کی وجہ سے عبوری بجٹ پیش کرے گا، حکومت انکم ٹیکس دہندگان کو مطمئن کرنا چاہتی تھی۔ تاہم کسانوں کو ایم ایس پی کی یقین دہانی کراتے ہوئے اور ان کی آمدنی بڑھانے میں حکومت کی خاموشی نے کسانوں کو حیران کر دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر خزانہ نے اس بات پر زور دیا کہ لاکھوں نوجوانوں کو ہنر مندی کی تربیت دی جائے گی، لیکن یہ سوال خاموش ہے کہ تربیت کے بعد کیا ہوگا؟ حکومت بے روزگاروں کے لیے کتنی نوکریاں پیدا کرے گی؟ ضروری اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے جس سے زیادہ تر نچلے اور متوسط ​​طبقے کو نقصان پہنچا ہے۔ اس سال مجموعی طور پر توقعات بہت زیادہ تھیں لیکن پھر یہ فلاپ ہو گئی ہیں۔ مودی حکومت کے عام بجٹ پر مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر نانا پٹولے نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس بجٹ میں دلکش نعروں،بیان بازیوں، نمبروں کے کھیل اور سنہرے خوابوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں، منریگا، پٹرول، ڈیزل، ایل پی جی گیس کی قیمتوں میں اضافہ، زرعی پیداوار کی کم از کم امدادی قیمت جیسے سلگتے ہوئے مسائل پر وزیر خزانہ نے منہ تک نہیں کھولا۔ سچائی یہ ہے کہ اس بجٹ سے ملک کے عوام کے ہاتھوں مایوسی ہی آئی ہے۔

بجٹ سے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہوا

کانگریس کے ریاستی صدر نے کہا کہ مہاراشٹر ٹیکس کے طور پر سب سے زیادہ رقم مرکز کو دیتا ہے لیکن ہماری ریاست کو اس بجٹ سے کچھ بھی ٹھوس نہیں ملا ہے۔ اقلیتوں، دلتوں، قبائلیوں، کسانوں، مزدوروں، نوجوانوں، خواتین اور متوسط طبقے کو بھی اس بجٹ سے شدید مایوسی ہوئی ہے۔ نانا پٹولے نے کہا کہ اس بجٹ میں زرعی شعبے کا کوئی ذکر نہیں ہے جو ملک میں سب سے زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ فصلوں کے قرضہ جات کے شرح سود میں کوئی رعایت نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی کم از کم امدادی قیمت یعنی ایم ایس پی کے حوالے سے کوئی اعلان کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے کھاد اور بیجوں پر جی ایس ٹی میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ وزیر خزانہ نے کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کا کوئی روڈ میپ پیش نہیں کیا۔ کیمیکل سے پاک قدرتی کھیتی، کسانوں کے لیے ڈرون، ڈیجیٹل اور ہائی ٹیک خدمات جیسے دلکش الفاظ کے علاوہ کسانوں کے لیے اس بجٹ میں کوئی ٹھوس اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

پٹولے نے کہا کہ جب کانگریس حکومت نے راجستھان، ہماچل پردیش، چھتیس گڑھ میں پرانی پنشن اسکیم کو لاگو کیا تو دباؤ میں آکر مرکزی حکومت نے انکم ٹیکس میں 50 ہزار کی چھوٹ دی۔ لیکن یہ اعلان بھی ایک پھندے کی طرح ہے۔ عام انتخابات سے قبل متوسط طبقے کو ٹیکس میں ریلیف ملنے کی امید تھی لیکن حکومت نے انہیں بھی مایوس کیا۔ حکومت کی جانب سے پیش کی گئی نئی انکم ٹیکس اسکیم کے مطابق 10 لاکھ روپے کمانے والوں کو 78 ہزار روپے کا انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ پرانی سکیم میں یہ 65 ہزار روپے تھی۔ یہاں ریلیف دینے کے بجائے 13 ہزار روپے کے انکم ٹیکس کا بوجھ متوسط طبقے پر مزید ڈال دیا گیا۔ نئی ٹیکس اسکیم میں ہوم لون پر انکم ٹیکس کا فائدہ سیکشن 80C، 80D، 24B کے تحت کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔

یہ بجٹ عام انتخابات کے پیشِ نظر ’انتخابی جملہ‘ والا ہے

امرت کال پردے میں عوام کے بنیادی مسائل کو نہیں چھپایا جاسکتا

مرکزی حکومت کے ذریعے پیش کیے گئے عام پربجٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے ریاست کے اپوزیشن لیڈر اجیت پوار نے کہا ہے کہ یہ بجٹ پارلیمنٹ سمیت 9 ریاستوں کے ہونے والے انتخابات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے جس کا مقصد صرف لوگوں کو بیوقوف بنانا اور دھوکہ دینا ہے۔ وہ یہاں پارٹی دفتر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ چناوی جملے والا بجٹ ہے جس نے ملک کے تمام طبقات کو زبردست مایوس کیا ہے۔ گو کہ انکم ٹیکس کے سلیب میں رعایت دیتے ہوئے اوسط طبقے کو خوش کرنے کا ڈھونگ کیا گیا ہے جب کہ حقیقی معنوں میں اوسط طبقے کے سماجی تحفظات کے لیے کوئی ٹھوس انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ’ویلفیئر اسٹیٹ‘ کے تصور کو تباہ کرنے والا بجٹ بھی ہے۔ اجیت پوار نے سوال کیا کہ 2018 سے 2022 کے درمیان جب ملک کی جی ڈی پی صرف تین فیصد رہی تو یہ امرت کال کیسے ہوسکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ملک کو راست یا بالراست طور پر ٹیکس کی صورت میں سب سے زیادہ محصول دینے والی ریاست مہاراشٹر کے حصے میں اس بجٹ میں کچھ نہیں آیا ہے۔ یہ بجٹ مہاراشٹر کو ٹھینگا دکھانے والا ہے۔

اجیت پوار نے کہا کہ ملک کی معیشت پانچ ٹریلین ڈالر کرنے کا خواب اس سے پہلے بھی دکھایا گیا تھا، اب وہی خواب دوبارہ دکھایا گیا ہے۔ یہ خواب دوبارہ دکھاتے ہوئے مرکزی حکومت نے اپنی نااہلی کاثبوت پیش کیا ہے۔ یو پی اے حکومت 2004 سے 2014 کے دوران ملک کی جی ڈی پی کی شرح 6.8 فیصد تھی جب کہ این ڈی اے کے دور میں 2018 سے 2022 کے درمیان ملک کی'جی ڈی پی کی اوسط شرح صرف تین فیصد رہی۔ گزشتہ چار سالوں میں جی ڈی پی کی شرح اسی تین فیصد پر ہی ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر مالیات کس بنیاد پر کہہ رہی ہیں کہ یہ امرت کال ہے۔

یو این آئی

ممبئی: آج پارلیمنٹ میں مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے اپنا 5 واں مرکزی بجٹ اور 2019 میں برسراقتدار آنے والی مودی 2.0 حکومت کا آخری مکمل بجٹ پیش کیا۔ وزیر خزانہ نے ذاتی انکم ٹیکس کی حد بڑھانے سے لے کر کئی اعلانات کیے 5 لاکھ سے 7 لاکھ روپے تک سرمایہ کاری میں 33 فیصد کا زبردست اضافہ 10,00,000 کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ جب کہ اقلیتی امور کی وزارت کو 24 2023- کے مرکزی بجٹ میں 3097.60 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو پچھلے مالی سال کے نظر ثانی شدہ اعداد و شمار سے 484.94 کروڑ روپے زیادہ ہیں۔ وزیر خزانہ نرملا سیتارامن کے ذریعہ 2023-24 کے پیش کردہ بجٹ میں، مرکز نے اقلیتی امور کی وزارت کو 3,097.60 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی۔ مالی سال 2022-23 میں اقلیتی امور کی وزارت کا بجٹ تخمینہ 5,020.50 کروڑ روپے تھا اور بعد میں نظر ثانی شدہ مختص رقم 2,612.66 کروڑ روپے تھی۔ وزارت کو مجوزہ مختص میں سے 433 کروڑ روپے پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم کے لیے ہیں اور 1,065 کروڑ روپے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کے لیے ہیں۔

بجٹ میں اقلیتیں نظرانداز کی گئی ہیں

مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی (ایم پی سی سی) کے کارگزار صدر عارف نسیم خان نے اسے ایک انتخابی بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پورے بھٹ میں 25، سال کا وہیژن پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بجٹ میں یہی بتایا گیا کہ 2044، میں ایسی ترقی ہوگی یہ کہنے کی کوشش ہے، کُل ملاکر بجٹ آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے صدر اور ایم ایل اے ابو عاصم اعظمی نے بھی اسے چناوی بجے قرار دیا ہے اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اقلیتوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے گزشتہ نو سال میں بے روزگاری، مہنگائی اور پسماندہ طبقات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

بجٹ پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اے آئی ایم آئی ایم ایم پی امتیاز جلیل نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کے انکم ٹیکس دہندگان کو تھوڑا سا ریلیف دے کر حکومت اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں بڑا فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ امسال ہوئے اسمبلی انتخابات میں ہماچل پردیش میں بی جے پی کی شکست میں تنخواہ دار طبقے کا اہم کردار تھا۔ واضح رہے کہ چونکہ یہ حکومت کا آخری مکمل بجٹ ہوگا کیونکہ اگلے سال ایف ایم مئی 2024 میں ہونے والے انتخابات کی وجہ سے عبوری بجٹ پیش کرے گا، حکومت انکم ٹیکس دہندگان کو مطمئن کرنا چاہتی تھی۔ تاہم کسانوں کو ایم ایس پی کی یقین دہانی کراتے ہوئے اور ان کی آمدنی بڑھانے میں حکومت کی خاموشی نے کسانوں کو حیران کر دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر خزانہ نے اس بات پر زور دیا کہ لاکھوں نوجوانوں کو ہنر مندی کی تربیت دی جائے گی، لیکن یہ سوال خاموش ہے کہ تربیت کے بعد کیا ہوگا؟ حکومت بے روزگاروں کے لیے کتنی نوکریاں پیدا کرے گی؟ ضروری اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے جس سے زیادہ تر نچلے اور متوسط ​​طبقے کو نقصان پہنچا ہے۔ اس سال مجموعی طور پر توقعات بہت زیادہ تھیں لیکن پھر یہ فلاپ ہو گئی ہیں۔ مودی حکومت کے عام بجٹ پر مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر نانا پٹولے نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس بجٹ میں دلکش نعروں،بیان بازیوں، نمبروں کے کھیل اور سنہرے خوابوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں، منریگا، پٹرول، ڈیزل، ایل پی جی گیس کی قیمتوں میں اضافہ، زرعی پیداوار کی کم از کم امدادی قیمت جیسے سلگتے ہوئے مسائل پر وزیر خزانہ نے منہ تک نہیں کھولا۔ سچائی یہ ہے کہ اس بجٹ سے ملک کے عوام کے ہاتھوں مایوسی ہی آئی ہے۔

بجٹ سے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہوا

کانگریس کے ریاستی صدر نے کہا کہ مہاراشٹر ٹیکس کے طور پر سب سے زیادہ رقم مرکز کو دیتا ہے لیکن ہماری ریاست کو اس بجٹ سے کچھ بھی ٹھوس نہیں ملا ہے۔ اقلیتوں، دلتوں، قبائلیوں، کسانوں، مزدوروں، نوجوانوں، خواتین اور متوسط طبقے کو بھی اس بجٹ سے شدید مایوسی ہوئی ہے۔ نانا پٹولے نے کہا کہ اس بجٹ میں زرعی شعبے کا کوئی ذکر نہیں ہے جو ملک میں سب سے زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ فصلوں کے قرضہ جات کے شرح سود میں کوئی رعایت نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی کم از کم امدادی قیمت یعنی ایم ایس پی کے حوالے سے کوئی اعلان کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے کھاد اور بیجوں پر جی ایس ٹی میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ وزیر خزانہ نے کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کا کوئی روڈ میپ پیش نہیں کیا۔ کیمیکل سے پاک قدرتی کھیتی، کسانوں کے لیے ڈرون، ڈیجیٹل اور ہائی ٹیک خدمات جیسے دلکش الفاظ کے علاوہ کسانوں کے لیے اس بجٹ میں کوئی ٹھوس اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

پٹولے نے کہا کہ جب کانگریس حکومت نے راجستھان، ہماچل پردیش، چھتیس گڑھ میں پرانی پنشن اسکیم کو لاگو کیا تو دباؤ میں آکر مرکزی حکومت نے انکم ٹیکس میں 50 ہزار کی چھوٹ دی۔ لیکن یہ اعلان بھی ایک پھندے کی طرح ہے۔ عام انتخابات سے قبل متوسط طبقے کو ٹیکس میں ریلیف ملنے کی امید تھی لیکن حکومت نے انہیں بھی مایوس کیا۔ حکومت کی جانب سے پیش کی گئی نئی انکم ٹیکس اسکیم کے مطابق 10 لاکھ روپے کمانے والوں کو 78 ہزار روپے کا انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ پرانی سکیم میں یہ 65 ہزار روپے تھی۔ یہاں ریلیف دینے کے بجائے 13 ہزار روپے کے انکم ٹیکس کا بوجھ متوسط طبقے پر مزید ڈال دیا گیا۔ نئی ٹیکس اسکیم میں ہوم لون پر انکم ٹیکس کا فائدہ سیکشن 80C، 80D، 24B کے تحت کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔

یہ بجٹ عام انتخابات کے پیشِ نظر ’انتخابی جملہ‘ والا ہے

امرت کال پردے میں عوام کے بنیادی مسائل کو نہیں چھپایا جاسکتا

مرکزی حکومت کے ذریعے پیش کیے گئے عام پربجٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے ریاست کے اپوزیشن لیڈر اجیت پوار نے کہا ہے کہ یہ بجٹ پارلیمنٹ سمیت 9 ریاستوں کے ہونے والے انتخابات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے جس کا مقصد صرف لوگوں کو بیوقوف بنانا اور دھوکہ دینا ہے۔ وہ یہاں پارٹی دفتر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ چناوی جملے والا بجٹ ہے جس نے ملک کے تمام طبقات کو زبردست مایوس کیا ہے۔ گو کہ انکم ٹیکس کے سلیب میں رعایت دیتے ہوئے اوسط طبقے کو خوش کرنے کا ڈھونگ کیا گیا ہے جب کہ حقیقی معنوں میں اوسط طبقے کے سماجی تحفظات کے لیے کوئی ٹھوس انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ’ویلفیئر اسٹیٹ‘ کے تصور کو تباہ کرنے والا بجٹ بھی ہے۔ اجیت پوار نے سوال کیا کہ 2018 سے 2022 کے درمیان جب ملک کی جی ڈی پی صرف تین فیصد رہی تو یہ امرت کال کیسے ہوسکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ملک کو راست یا بالراست طور پر ٹیکس کی صورت میں سب سے زیادہ محصول دینے والی ریاست مہاراشٹر کے حصے میں اس بجٹ میں کچھ نہیں آیا ہے۔ یہ بجٹ مہاراشٹر کو ٹھینگا دکھانے والا ہے۔

اجیت پوار نے کہا کہ ملک کی معیشت پانچ ٹریلین ڈالر کرنے کا خواب اس سے پہلے بھی دکھایا گیا تھا، اب وہی خواب دوبارہ دکھایا گیا ہے۔ یہ خواب دوبارہ دکھاتے ہوئے مرکزی حکومت نے اپنی نااہلی کاثبوت پیش کیا ہے۔ یو پی اے حکومت 2004 سے 2014 کے دوران ملک کی جی ڈی پی کی شرح 6.8 فیصد تھی جب کہ این ڈی اے کے دور میں 2018 سے 2022 کے درمیان ملک کی'جی ڈی پی کی اوسط شرح صرف تین فیصد رہی۔ گزشتہ چار سالوں میں جی ڈی پی کی شرح اسی تین فیصد پر ہی ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر مالیات کس بنیاد پر کہہ رہی ہیں کہ یہ امرت کال ہے۔

یو این آئی

For All Latest Updates

TAGGED:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.