شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر بے شمار اجلاس منعقد ہو چکے ہیں اور سیکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔
ہر دور میں آپ کا قد آفاقی شاعر کی حیثیت سے اور اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے شعرا میں سرِ فہرست رہا ہے۔
علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت اور آپ کے فکروفن کوعام قارئین، اساتذہ، طالبہ و طالبات تک پہنچانے کے لیے کو کن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی بھیونڈی کے زیرِ اہتمام جی ایم مومن ویمنز کالج ہال، رئیس ہائی اسکول کیمپس میں جشنِ اقبال کا انعقاد کیا گیا۔
یہ جشن دو سیشن پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن (افکارِ اقبال)کا ہوا جس میں طالب علم ظفر کا ترجمہ ششم جماعت کے طالب علم مومن انفال جاوید نے کیا۔
اس کے بعد کے ایم ای سوسائٹیز پری پرئمری اسکول کے طلبا و طالبہ نے اردو ترانہ پیش کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تشریف لائے ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی نے کلیدی خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ علامہ اقبال کلاسیکی اور جدید دونوں دور سے تعلق رکھتے ہیں۔
علامہ اردو، عربی اورفارسی تینوں زبانوں کے شعرا میں امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ خودی اور حرکت وعمل آپ کی شاعری کی امتیازی اوصاف ہیں۔ فصیح و بلیغ کلیدی خطبہ کے بعد علامہ اقبال کے منتخب اشعار کی تشریحات پر مشتمل کتاب ’تفہیم اقبال“ کا اجرا عمل میں آیا۔
سیشن کے آخیر میں ”زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافرجانا“ کے عنوان سے ایک مباحثہ ترتیب دیا گیا جس کی میزبانی مشہور انشائیہ نگار محمد رفیع انصاری نے انجام دیتے ہوئے انہوں نے شرکائے مباحثہ سے چبھتے ہوئے سوالات کیے جن کا شرکاء نے تسلی بخش جوابات دیے۔
مشہور ادیب و شاعر شمیم طارق کی صدارت میں دوسرے سیشن بعنوان ”انوارِ اقبال“ کا آغاز ہوا جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے آئے ہوئے سید سراج اجملی نے اقبال کے شاعرانہ امتیازات پر اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا.