مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ 'ملک کا مسلمان مردم شماری کا ہرگز مخالف نہیں ہے اور جس طرح سے 2010 میں مردم شماری کرائی گئی تھی، انہیں خطوط پر 2020 میں بھی مردم شماری کرائی جائے۔'
انہوں نے کہا کہ 'مردم شماری کے نام پر این پی آر (قومی آبادی رجسٹر) نامی جو قانون ملک کی مختلف ریاستوں میں نافذ ہونے والا ہے اس کی موجود ہ شکل نا قابل قبول ہے اور اسے فور ی طور پر رد کیا جائے۔'
انہوں نے کہا کہ 'اس میں جو نئے نکات شامل کیے گئے ہیں، اس کی رو سے عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد کواس کی تفصیل اور شواہد فراہم کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے اور سروے آفیسر کسی کو مشکوک شہری بنانے کے اختیار کا غلط استعمال بھی کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں جمعیت علماء جلد ہی ایک لائحہ عمل ترتیب دے گی۔'
جمعیت علماء کی جانب سے آزاد میدان میں 23 فروری کو منعقد ہونے والی تحفظ جمہوریت کانفرنس سے قبل ممبئی کے مراٹھی پتر کار سنگھ میں منعقد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'این پی آر کی نئی شکل کو لے کر مرکزی حکومت کا رویہ انتہائی مبہم اورغیر واضح ہے۔ اسی لیے ہر جانب سے اس پر سوال اٹھ رہے ہیں اور ملک بھرکے شہریوں کی طرف سے طرح طرح کے خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے اس لیے این پی آر کی موجودہ شکل رد کی جانی چاہیے۔'
مولانا مدنی نے مزید کہا کہ 'این پی آر کی موجودہ شکل درحقیقت این آرسی کا پہلا مرحلہ ہے اور اسی لیے اس میں کچھ ایسی نئی معلومات کا خانہ رکھا گیا ہے کہ جن کو فراہم کرنا عام شہریوں کے لیے ایک دشوارکن مرحلہ ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'اپوزیشن پارٹیوں کے سخت احتجاج اور مخالفت کے بعد مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے پارلیمنٹ میں یہ یقین دہانی ضرور کرائی گئی ہے کہ ملک بھر میں این آرسی لانے کا حکومت کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے، یہ لفظ فی الحال اندر کی کہانی بیان کر دیتا ہے۔'
مولانا مدنی نے کہا کہ اگر حکومت کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے تو اسے واضح طورپر پارلیمنٹ میں کہنا چاہیے تھا کہ ملک میں این آرسی کبھی نہیں لاگوہوگی مگر اس نے ایک مبہم ساجواب دیکر عوام کو بہکانے کی دانستہ کوشش کی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت این پی آرکو ایک نئی شکل میں لایا جارہا ہے اور اگر یہ اپنی موجودہ شکل میں نافذ ہوگیاتو پھر آسام کی طرح دوسری ریاستوں میں بھی سرکل افسران کو یہ اختیارحا صل ہوگا کہ وہ جس کسی شہری کوچاہیں ڈاؤٹ فل یعنی مشکوک شہری قراردے سکتے انہوں نے کہا کہ این آرسی نافذ ہونے سے قبل آسام میں یہ کھیل کھیلاجاچکا ہے جہاں لوگوں کو ڈی ووٹرقرار دے کر ووٹ دینے کے حق سے محروم کردیا گیا تھا۔
مولانا مدنی نے مرکزی حکومت پر الزام عائد کیا کہ حکومت این پی آر کی موجودہ شکل کے سہارے آسام کی طرز پر مرکزی حکومت اب یہی کھیل حکومت پورے ملک میں کھیلنا چاہتی ہے اگر ایساہوتا ہے تو شہریوں کو فارن ٹربیونل سے رجوع کرنے کا اختیارتو ہوگا مگر وہاں انہیں اپنی شہریت ثابت کرنا جوئے شیرلانے جیساہوگا کیوں کہ ٹربیونل میں بھی حکومت کے ہی لوگ ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سی اے اے کے اس لیے مخالف ہیں کہ یہ آئین کی رہنماء ہدایات کے خلاف لایاگیا قانون ہے جس سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے حقوق مجروح ہوتے ہیں اور این پی آر ہمارے لیے اس لیے ناقابل قبول ہے نیز یہ بات بالکل واضح ہیکہ بی جے پی حکومت اس قانون کے ذریعہ جہاں ایک طرف شہریوں کے حق شہریت سے چھیڑ چھاڑ کرنا چاہتی ہے وہیں دوسری طرف اپنے وو ٹ بینک میں اضافہ کرکے ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنا چاہتی ہے۔
جمعیۃ علماء کے صدر نے 23 فروری کو ممبئی کے تاریخی آزاد میدان میں ہونے والے کل ہند تحفظ جمہوریت کانفرنس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش کی یوگی حکومت کی جانب سے دیوبند میں اجلاس عام منعقد کرنے کی اجازت نا ملنے کے بعد جمعیۃعلماء اپنا یہ اجلاس ممبئی میں منعقد کررہی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ جمعیۃ کو حکومت کی جانب سے جلسہ منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔انہوں نے مزید کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کے تعلق سے جمعیۃ اپنے مزید لائحہ عمل کا فیصلہ پنی مجلس منتظمہ کی میٹنگ کے بعد کریں گی اور اس کا اعلان آزاد میدان میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔