ممبئی: لاک ڈاؤن کے سبب آٹیزم کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق دور حاضر میں پیدا ہونے والے 90 فیصد بچے آٹیزم کے شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ بچے کسی سے ملنا یا کھیلنا کودنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ آٹیزم کے شکار بچوں کے لئے فلاح و بہبود کا کام کرنے والی منجشا سنگھ کہتی ہیں کہ آٹیزم کے شکار بچوں کو لیکر آغاز میں پیرنٹس کو اس کے بارے میں کوئی جانکاری یا بیداری نہیں ہوتی ہے، جس کی وجہ سے آٹیزم کے شکار بچوں کا انہیں پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔ Lockdown Impact on Children With Autism
آٹیزم کے شکار بچوں کے لئے فلاح و بہبود کا کام کرنے والی منجشا سنگھ ایک غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم ہونے کے سبب یہاں فیس بھی معمولی ہے۔ منجشا سنگھ کہتی ہیں کہ کئی گھروں میں، سماج میں لوگوں کو پتہ نہ چلے، اس لئے بھی آٹیزم کے بچوں کو صحیح رہنمائی یا صحیح تھیراپی نہیں مل پاتی۔ آکوپشنل تھراپی کے لئے پرائیویٹ ہسپتالوں میں فیس زیادہ ہونے کے سبب پیرنٹس کتراتے ہیں۔ جس کا خمیازہ ایک عمر کے بعد ان بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ منجشا سنگھ کہتی ہیں کہ کووڈ کے سبب آٹیزم کے شکار بچوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں یعنی والدین کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ آپ کا بچہ یا بچی اگر آٹیزم کے شکار ہیں، تو اس بیماری سے کیسے چھٹکارہ پایا جائے۔Lockdown Impact on Children With Autism
یہ بھی پڑھیں: Autism Cases Increased During Lockdown: ’گزشتہ تین برسوں کے دوران آٹزم کیسز میں اضافہ درج ہوا ہے‘
ایک ریسرچ کے مطابق دور حاضر میں پیدا ہونے والے 90 فیصد بچے آٹیزم کے شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لئے آکیوپیشنل تھراپی کے ساتھ ساتھ بچوں کو پارک، بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر لے جائیں، انہیں لوگوں سے رو برو کرائیں اور سب اہم یہ کہ آٹیزم کو ہلکے میں نہ لیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ لاعلاج بیماری ہے۔ اگر ہم اس پر بچوں کے پیدا ہونے کے بعد ہی غور کریں تو بہت ہی کم وقت میں بچوں کو اس ذہنی بیماری سے چھٹکارہ دلایا جا سکتا ہے۔Lockdown Impact on Children With Autism