ہمارے تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو پروان چڑھانے میں فنکشن ہال کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر شہر میں بڑے بڑے فنکشن ہال اسی مقصد کے تحت تعمیر کیے جاتے ہیں۔
اورنگ آباد شہر میں دو دہائی قبل میونسپل کارپوریشن Aurangabad Municipal Corporation کی جانب سے متعدد فنکشن ہال تعمیر کیے گئے تھے لیکن آج یہ فنکشن ہال اپنی زبوں حالی کی داستاں بیان کر رہے ہیں۔
شہر کا تاریخی نہرو بھون خستہ حالی کا شکار ہے۔ اس بھون نے تاریخ کے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ اس کے اسٹیج کو قومی و بین الاقوامی شخصیات نے رونق بخشی ہے۔ یہ آج بھلے ہی کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہو لیکن اس کے دامن میں شہر کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کے کئی سارے نقوش پوشیدہ ہیں۔
آج اس کی کھڑکیوں پر سبزہ اُگ آیا اور یہ جنگلی جھاڑیوں کا مسکن بن چکا ہے۔ دیواریں بوسیدہ ہوچکی ہیں، یہ ایک کھنڈر بن چکا ہے لیکن ایک دور ایسا بھی تھا جب یہ شہر کی شان ہوا کرتا تھا اور اس کے دامن میں انسانی سروں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوا کرتا تھا لیکن اب اسکے وجود پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
اس کے علاوہ شہر کے مولانا آزاد ریسرچ سینٹر Maulana Azad Research Centre Aurangabad کا بھی یہی حال ہے۔ اس کے قیام کا مقصد اردو میں تحقیق اور ریسرچ کو فروغ دینا اور ادبی پروگرامز کی ترقی و ترویج میں کلیدی رول ادا کرنا تھا۔ ریسرچ کے نام پر اس کے دامن میں ایک لائبریری ہے جہاں مشکل سے ہی کوئی آتا ہے۔ دوسرے کانفرنس ہال میں ادبی اور ثقافتی پروگرام ہوتے تو ہیں لیکن مولانا آزاد ریسرچ سینٹر کی تعمیر کے بعد حکام نے اس جانب توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔
اورنگ آباد شہر کی ایک ادبی تنظیم جو معروف شاعر سکندر علی وجد کے نام سے منسوب ہے نے بڑے شور کے ساتھ 20 برس قبل وقف بورڈ کی زمین پر وجد میموریل ہال تعمیر کیا لیکن پچھلی دو دہائیوں سے یہ ہال بھی کھنڈر بنا ہوا ہے۔ موجودہ وقت میں سکندر علی وجد ہال نگراں خاندان کا مسکن بنا ہوا ہے اور یہاں کسی پروگرام کا تصور بھی محال ہے۔
اورنگ آباد شہر کو ادبی سرگرمیوں کا گہوارہ کہا جاتا ہے لیکن میونسپل کارپوریشن کے ساتھ ساتھ شہر کی ادبی تنظیمیں اس ادبی اور ثقافتی ورثے کو بچانے میں کتنی سنجیدہ ہیں اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔