ضلع اورنگ آباد کے پیٹھن کے ہرشی تانڈا کو جانے والے راستے کی یہ حالت زار ہے۔ اس چھوٹے سے گاؤں میں بھیل سماج کی اکثریت ہے۔
ایک خاتون کسان ہوسہ بائی جادھو کی خودکشی سے یہ گاؤں سرخیوں میں آگیا ہے۔
ہوسہ بائی کے بیٹے کا کہنا ہے کہ، 'ان کے خاندان میں صرف ان کی ماں ہی پڑھنا لکھنا جانتی تھیں، ان کی محنت اور لگن کی وجہ سے ہی ان کی یہ جھونپڑی مکان میں تبدیل ہوئی ہے۔
اس مکان کے لیے ہوسہ بائی نے بچت گُٹ اور نجی سوسائٹی سے آٹھ لاکھ روپئے قرض حاصل کیا تھا، لیکن کورونا وبا کے دوران قرض چکانا مشکل ہوگیا۔
لاک ڈاؤن نے رہی سہی کسر پوری کردی، جبکہ پرائیویٹ ایجنسی کے اہلکار قرض کا تقاضہ کرتے رہے، جس سے تنگ آکر ہوسہ بائی نے پھانسی لگاکر خودکشی کرلی۔'
اورنگ آباد کے رکن پارلیمان امتیاز جلیل نے کسانوں کی خودکشی کے معاملے پر کہا کہ، 'کسانوں کے حالات سے وقف ہونے کے باوجود ان کے حالات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔'
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ، سوشانت سنگھ کی خودکشی کے بارے میں جاننے کی کوشش تو کی جا رہی ہے، لیکن کسان کیوں خودکشی کر رہا ہے یہ جاننے کی کوشش کوئی نہیں کر رہا ہے۔
رکن پارلیمان نے میڈیا کی بے حسی اور طے شدہ امور پر جاری بحث و مباحثہ کی طرف بھی اشارہ کیا جن میں کسانوں کی حالت زار اور عام لوگوں کے مسائل کو کوئی جگہ نہیں دی جاتی ہے۔
زراعتی پیشے سے وابستہ خواتین کن خطرناک حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں، اس کا انکشاف مہیلا ادھیکار کسان منچ کے سروے میں ہوا ہے۔
یہ سروے مراٹھواڑہ کے تمام اضلاع میں کیا گیا، جس میں کسان خواتین اور کسان مزدور خواتین کے حالات کا جائزہ لیا گیا، جو کہ قابل رحم ہے۔ سروے کے مطابق۔
- 60 فیصد بیوہ خواتین کو کوئی پنشن نہیں
- 56 فیصد خواتین کو وزیراعظم کسان اسکیم کا فائدہ نہیں ملا
- 55 فیصد کسان خواتین کے پاس جن دھن اکاؤنٹ نہیں
- 76 فیصد خواتین کو اجولا اسکیم کا فائدہ نہیں مل پایا
مزید پڑھیں:
مراٹھواڑہ: سرکاری گھاٹی اسپتال کے رہائشی ڈاکٹروں کی ہڑتال
ایسے حالات میں ہوسہ بائی جیسی کوئی خاتون ہمت کرتی ہے، تو ہمارا سسٹم اسے خودکشی پر مجبور کردیتا ہے۔