انسان کے تمام اعضا کی اہمیت کسی معذور سے زیادہ کون جان سکتا ہے، ہمارے معاشرے میں ہاتھ پیر سے محروم اور پیدائشی معذوروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جو زندگی بھر بغیر سہارے کے کچھ نہیں کرسکتے ایسے ہی سینکڑوں اپاہج اور معذور افراد کا معذور پن دور کرنے میں مصروف ہے اورنگ آباد کی پریرنا ٹرسٹ۔
دنیا کی 15 فیصد آبادی کسی نہ کسی طرح کی معذوری کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے۔یہ معذوری اکثر ان کی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔اسی سلسلے میں ان معذور افراد کو نئی زندگی دینے کا کام دہلی کے رجنی موہن کر رہے ہیں۔
رجنی موہن گزشتہ آٹھ برس سے پورے ملک میں گھوم گھوم کر معذوروں کی مدد کے لیے سامنے آرہے ہیں۔ان دنوں رجنی موہن رضاکارانہ طور پر پریرنا ٹرسٹ کے ساتھ مل کر اورنگ آباد کے معذوروں کو مصنوعی ہاتھ اور پیر مہیا کرکے ان کی مدد کر رہے ہیں۔ایک ہفتے تک چلنے والے اس کیمپ میں تقریبا دو سو معذوروں کا معذور پن دور ہوگا۔
اس کیمپ میں آئے شیو مہادیو توپے نے کہا کہ میں گزشتہ تیس برسوں سے کیپیلر پہنتا ہوں۔لیکن ابھی جو مجھے کیپیلر ملا ہے یہ پہلے کے مقابلے کافی آرام دہ ہے۔اس کی وجہ سے مجھے چلنے میں کافی آسانی ہوئی ہے۔
سوسائٹی فار ہیومن ویلفیئر اینڈ امپاور منٹ کے کوآرڈینیٹر رجنی موہن نے کہا کہ ہم نے تقریبا 200 معذور افراد کا ناپ لیا ہے اور پریرنا ٹرسٹ کی مدد سے ہم ان مصنوعی اعضاء لوگوں کو مفت فراہم کریں گے۔
مردم شماری 2001 کے مطابق بھارت میں 21 ملین سے رائدافراد معذوری کا شکار ہیں۔ یہ آبادی کے 2.1 فیصد کے برابر ہیں۔ ملک میں کل معذور افراد میں سے 12.6 ملین مرد اور 9.3 ملین خواتین ہیں۔مردم شماری 2011 کے مطابق بھارت کی 121 کروڑ آبادی میں سے 2.68 کروڑ افراد معذور ہیں۔ جو کل آبادی کا 2.21٪ ہے۔ یعنی تقریبا 10 برسوں میں معذور افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ان معذور آبادی میں 56 فیصد (1.5 کروڑ) مرد اور 44 فیصد (1.18 کروڑ) خواتین ہیں۔
پریرنا ٹرسٹ ، سوسائٹی فار ہیومن ویلفیئر اینڈ امپاورمنٹ کے اشتراک سے جاری اس کیمپ میں دس مہینے پہلے معذوروں کے ہاتھ اور پیروں کے ناپ لیے گئے تھے اور اس کے لحاظ سے مصنوعی اعضا تیار کیے گئے۔ اس کیمپ میں معذوروں کو نہ صرف مصنوعی اعضا لگا ئے جارہے ہیں بلکہ ان کی تربیت بھی کی جارہی ہے ، تاکہ مستقبل میں انہیں کوئی دشواری پیش نہ آئیں ۔ پولیس کمشنر نکھل گپتا نے خدمت خلق میں مصروف ان بے لوث افراد کی ستائش کچھ اس انداز میں کی۔
پولیس کمشنر نکھل گپتا نے کہا کہ پریرنا ٹرسٹ بہت سالوں سے سماجی فلاح و بہبودی کے لیے کام کررہی ہے اور ان معذور افراد کو مصنوعی اعضاء مہیا کروانے کا کام قابل تعریف ہے اور لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ ایسی تنظیموں کی مدد کریں۔
وہیں پریرنا ٹرسٹ کے سکریٹری عبدالحسین نے کہا کہ دہلی کے سوسائٹی فار ہیومن ویلفیئر اینڈ امپاور منٹ سے مل کر ہم لوگوں کو خودمختار بنانے کا کام کر رہے ہیں۔اس کیمپ کے ذریعہ ہم معذور افراد کو مصنوعی اعضاء فراہم کر رہے ہیں۔تاکہ وہ اپنے پیروں میں کھڑے ہوسکیں۔
پریرنا ٹرسٹ کا شمار اورنگ آباد شہر کے قدیم ترین فلاحی اداروں میں ہوتا ہے، اس ٹرسٹ کے تحت معذور اور اپاہج بچوں کو خود کفیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ہزاروں کی تعداد میں معذور بچے اس ادارے سے فیض یاب ہوچکے ہیں۔خدمت خلق کے اس بے لوث جذبے کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے ۔