اورنگ آباد کے عثمان پولیس اسٹیشن میں مشتعل ہجوم نے پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ کیا جس کے بعد رکن پارلیمان امتیاز جلیل کی مداخلت سے حالات قابو میں آئے۔
شہر میں لاک ڈاؤن کے تعلق سے بیوپاریوں میں غیر یقینی کیفیت دیکھی گئی۔ میڈیا حلقے کی جانب سے لاک ڈاؤن کے بارے میں متضاد خبروں کی وجہ سے بیوپاری طبقہ کنفیوز ہوگیا۔ اسی کے چلتے شہر میں کچھ دکانیں کھلی رہی تو کچھ بند جبکہ پولیس اہلکار شہر کی سڑکوں پر گھوم گھوم کر دکانیں بند کرواتے نظر آئے۔
اسی دوران شہر کے عثمان پورہ علاقے میں ایک ہیئر سلون کھلا ہوا تھا۔ پولیس نے دکان کے مالک فیروز خان کو طلب کیا جس کے بعد ان کے درمیان بحث ہوئی اور ہاتھا پائی کے دوران فیروز کا توازن بگڑا اور وہ گر کر شدید زخمی ہوگیا۔
بتایا جاتا ہے کہ فیروز کو زخمی حالت میں گھاٹی دواخانے میں داخل کرایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے جانچ کے بعد اسے مردہ قرار دیا۔
اس واقعے کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی اور سینکڑوں افراد نے عثمان پورہ پولیس اسٹیشن کا محاصرہ کرلیا۔ اس دوران پولیس کی زیادتی پر عوام میں برہمی دیکھی گئی۔
مہلوک فیروز کے رشتہ داروں نے قصور وار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی تک لاش کو ہاتھ لگانے سے انکار کردیا۔
حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اورنگ آباد کے رکن پارلیمان امتیاز جلیل فوراً عثمان پورہ پولیس اسٹیشن پہنچے اور عوام اور پولیس کمشنر سے بات چیت کر کے ہجوم کو یقین دلایا کہ مہلوک کو انصاف دلانے میں کسی بھی طرح کی کوتاہی نہیں ہوگی۔
پولیس کمشنر نکھل گُپتا نے مہلوک کے رشتہ داروں کے ساتھ اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ پورے معاملے کی جانچ کرائم برانچ کے اعلی افسر کی نگرانی میں ہوگی۔ قصوروار پولیس سب انسپکٹر اور اس کے معاونین کا تبادلہ کردیا گیا ہے اور جلد ہی ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی ۔
واضح رہے کہ اورنگ آباد میں جزوی لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران ضلع کلکٹر نے 30 اپریل تک لاک ڈاؤن کا اعلان ابھی جاری ہی تھا کہ وزیراعلی ادھو ٹھاکرے کے نئے فرمان نے عوام کو مخمصے میں ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے۔
اورنگ آباد کے بیوپاری پہلے روز سے لاک ڈاؤن کی مخالفت کرر ہے ہیں لیکن انتظامیہ انہیں خاطر میں نہیں لا رہا ہے نتیجہ ایک بے قصور کی موت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔