کورونا کی دوسری لہر کے بعد ممبئی میں حالات بہت ہی نازک ہو گئے ہیں۔ انہی حالات سے متاثر ہو کر ممبئی کے سبگدوش اے سی پی اقبال شیخ نے ایک نظم لکھی ہے۔
اس نظم میں شیخ نے کورونا کے حالات کا ذمہ دار عوام کی لاپرواہی کو بتایا ہے۔ انہوں نے موجودہ حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے حکومت کی ناکامیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ہسپتال میں کورونا کے مریضوں کی تعداد اور ممبئی سے واپس اپنے وطن جانے والے مزدور طبقے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس نظم کے ذریعہ بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اپنی نظم میں انہوں نے حالات حاضرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کورونا سے احتیاطی تدابیر اپنانے اور ویکسین لینے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے احتیاطی تدابیر نہ اپنانے پر کس طرح سے لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، اس کا بھی ذکر کیا ہے۔
اقبال شیخ کی یہ نظم ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ ای ٹی وی بھارت نے اس نظم کے الفاظ واقعات اور حالات جس کا ذکر شیخ نے کیا ہے، اسی لحاظ سے ممبئی کے متعد مقامات کی منظر کشی کرتے ہوئے اُن مقامات کو اس نظم میں پُر کیا ہے تاکہ ناظرین بیدار ہو سکیں۔ واضح رہے کہ شوٹ آؤٹ لوکھنڈ والا میں ان کے کردار پر مبنی ہے۔
نظم
پھر سڑکیں ویرانی ہو گئیں
پھر دل آوارہ ہو گیا
پھر جان کر نادانی ہوگئی
پھر کورونا دوبارہ ہوگیا
پھر بھیڑ وہاں جمنے لگی
پھر اسپتال جیسے چوباره ہوگیا
پھر مزدور وطن کو چل دیے
پھر شہر شہر وہی نظارہ ہوگیا
پھر وہی آکسیجن ۔ دوائیں ۔ ویکسین سب گم
پھر حکمران داعوں کا غبارہ ہو گیا
پھر مندر مسجد گرجا ہوگئے تالے بند
پھر سبھوں کی عبادت کا خسارہ ہو گیا
پھر وہی بندشیں، وہی ماسک، وہی دو گز کی دوری
پھر جس نے اسے اپنایا، کورونا سے چھٹکارہ ہو گیا
پھر کیوں نہ بتائیں اقبال اس پل پل بدلتی وبا کی نسبت
پھر جو نہ بدلا جو نہ سنبھلا، اللہ کو پیارا ہو گیا