ETV Bharat / state

ممبئی ٹرین بم دھماکہ کے سارے سزایافتہ بے قصور: سماجی کارکنان

ممبئی ٹرین بم دھماکوں کی برسی کے موقع پر ممبئی کے مراٹھی پترکار سنگھ نے پریس کانفرنس کے ذریعہ مذکورہ بم دھماکوں میں ماخوذ کیے گئے 12 نوجوانوں کی بے گناہی کو مختلف دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی۔

ممبئی ٹرین بم دھماکہ کے سارے سزایافتہ بے قصور: سماجی کارکنان
author img

By

Published : Jul 12, 2019, 12:50 PM IST

ممبئی کے مراٹھی پترکار سنگھ میں انوسینس نیٹورک کے بینر تلے 11 جولائی 2006 کی ممبئی ٹرین بم دھماکے کی برسی کے موقع پر پریس کانفرنس کے ذریعے اس میں قصور ٹھہرائے گئے افراد کی بے گناہی پر مختلف دلائل پیش کیے۔

سماجی شخصیات کا دعویٰ ہے ٹرین بم دھماکے کے اصل مجرمین کو بچا لیا گیا ہے۔

ممبئی ٹرین بم دھماکہ کے سارے سزایافتہ بے قصور: سماجی کارکنان

دراصل 11 جولائی 2006 میں ہونے والے ٹرین دھماکے میں تقریبا 200 افراد مارے گئے تھے، جبکہ 700 سے زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ چونکہ پولیس پر دباؤ تھا اور اسے ہر حال میں یہ دکھانا تھا کہ اس نے بم دھماکہ کے سارے ملزمین کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس لیے اس نے آسان ہدف کے طور پر بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے پوری کمیونٹی کو بدنام کیا ہے۔

کئی سماجی خدمت گاروں نے بتایا کہ کس طرح پولیس بے گناہوں کو ماخوذ کرتی ہے۔ بقول جسٹس کاٹجو پولیس کا کوئی سائنسی طریقہ تفتیش نہیں ہونے کے سبب دباؤ میں آکر چند نوجوانوں کو گرفتار کرلیتی ہے اور پھر ان کے تعلق سے فرضی کہانیاں گڑھتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بے گناہوں کی زندگی برسوں جیلوں کی نذر ہوجاتی ہے، پھر عدالت سے بری ہو جاتے ہیں۔

عبدالواحد شیخ نے بتایا کہ ابھی تک سزایافتہ نوجوان اعلیٰ عدالت میں اپیل اس لیے نہیں کرپائے ہیں، کیوں کہ 200 صفحات پر مشتمل انتہائی اہم کاغذات اے ٹی ایس والے نہیں دے رہے ہیں۔ جس کی بنیاد پر سزایافتہ افراد کے لیے اپیل نہیں کی جاسکی ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ دراصل وہی کاغذات متاثر نوجوانوں کی بے گناہی کا ثبوت ہوسکتے ہیں اس لیے اسے دینے میں اے ٹی ایس آنا کانی کر رہی ہے۔

پریس کانفرنس میں بہار کے مدھوبنی سے آئی ہوئی کمال انصاری کی والدہ نے کہا کہ 'میرا بیٹا بے گناہ ہے اسے پولیس رات کے دس بجے گھر سے اٹھاکر لے گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ 'میرے بیٹے نے تو ممبئی دیکھی بھی نہیں تھی پھر بھی اسے بم دھماکوں میں پھنسایا گیا۔


اصل گناہگار کون؟

فواد شاہین نے سوال کیا مذکورہ دھماکے میں دوسو سے زائد افراد ہلاک اور تقریبا سات سو افراد زخمی ہوئے، اس کے اصل مجرم کون ہیں اور کہاں ہیں؟ وہ کب تک گرفتار ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم سب اس سسٹم کے متاثر ہیں۔

عبدالواحد نے بتایا کہ جب یہاں ممتاز میر اپنی روداد بیان کررہے تھے تب میرے دماغ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پولس اور اے ٹی ایس کا ظلم سہتے ہوئے یہ سوال اٹھتا تھا کہ ہم بے گناہ ہیں، ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود ہمیں کیوں ٹارچر کیا جا رہا ہے؟

اس پریس کانفرنس میں شامل ہونے والوں میں ممتاز میر بھی تھے۔ متماز میر کو سنہ 1994 میں ٹاڈا کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، لیکن چند ماہ بعد ہی ممتاز میر کو باعزت بری کیا گیا تھا۔

ممتاز میر نے بتایا کہ وہ خاندانی قیدی بنے ہیں۔ ان کے والد دوبارہ اس سسٹم کے ظلم کا شکار ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے جوڈیشیل سسٹم میں کافی خامی ہے۔


مذکورہ مقدمہ پر نظر رکھنے والے خالد شیخ نے کہا کہ خوف کا ایسا ماحول ہے کہ کوئی سوال نہیں کرتا ۔ پچیس سال بعد کسی کو بری کردینا کون سا انصاف ہے ۔ یہ انصاف کی موت ہے ۔ ان کی عمر کے پچیس سال کون واپس کرے گا ؟ اس کا انصاف کون کرے گا؟

انو شینس نیٹورک کے شارب اقلیم علی نے کہا بم دھماکوں میں مرنے والوں اور جن کو فرضی طور پر ماخوذ کیا گیا دونوں کے غم میں فرق نہیں ہے؛ موجودہ دور میں انصاف کے پیمانوں کو تبدیل کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا جو اے ٹی ایس اور ممبئی کرائم برانچ نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ تفتیش خالص سائنسی طریقہ سے کیا جارہا ہے اس کے لیے لائی ڈٹیکٹر اور موبائل کال ریکارڈر کی بنیاد پر صحیح رخ پر تفتیش کرنے کا جھانسہ دیا گیا، لیکن عدالت میں ملزمین کے کال ریکارڈ کے ڈیٹا پیش ہی نہیں کیے گئے۔

ممبئی کے مراٹھی پترکار سنگھ میں انوسینس نیٹورک کے بینر تلے 11 جولائی 2006 کی ممبئی ٹرین بم دھماکے کی برسی کے موقع پر پریس کانفرنس کے ذریعے اس میں قصور ٹھہرائے گئے افراد کی بے گناہی پر مختلف دلائل پیش کیے۔

سماجی شخصیات کا دعویٰ ہے ٹرین بم دھماکے کے اصل مجرمین کو بچا لیا گیا ہے۔

ممبئی ٹرین بم دھماکہ کے سارے سزایافتہ بے قصور: سماجی کارکنان

دراصل 11 جولائی 2006 میں ہونے والے ٹرین دھماکے میں تقریبا 200 افراد مارے گئے تھے، جبکہ 700 سے زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ چونکہ پولیس پر دباؤ تھا اور اسے ہر حال میں یہ دکھانا تھا کہ اس نے بم دھماکہ کے سارے ملزمین کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس لیے اس نے آسان ہدف کے طور پر بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے پوری کمیونٹی کو بدنام کیا ہے۔

کئی سماجی خدمت گاروں نے بتایا کہ کس طرح پولیس بے گناہوں کو ماخوذ کرتی ہے۔ بقول جسٹس کاٹجو پولیس کا کوئی سائنسی طریقہ تفتیش نہیں ہونے کے سبب دباؤ میں آکر چند نوجوانوں کو گرفتار کرلیتی ہے اور پھر ان کے تعلق سے فرضی کہانیاں گڑھتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بے گناہوں کی زندگی برسوں جیلوں کی نذر ہوجاتی ہے، پھر عدالت سے بری ہو جاتے ہیں۔

عبدالواحد شیخ نے بتایا کہ ابھی تک سزایافتہ نوجوان اعلیٰ عدالت میں اپیل اس لیے نہیں کرپائے ہیں، کیوں کہ 200 صفحات پر مشتمل انتہائی اہم کاغذات اے ٹی ایس والے نہیں دے رہے ہیں۔ جس کی بنیاد پر سزایافتہ افراد کے لیے اپیل نہیں کی جاسکی ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ دراصل وہی کاغذات متاثر نوجوانوں کی بے گناہی کا ثبوت ہوسکتے ہیں اس لیے اسے دینے میں اے ٹی ایس آنا کانی کر رہی ہے۔

پریس کانفرنس میں بہار کے مدھوبنی سے آئی ہوئی کمال انصاری کی والدہ نے کہا کہ 'میرا بیٹا بے گناہ ہے اسے پولیس رات کے دس بجے گھر سے اٹھاکر لے گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ 'میرے بیٹے نے تو ممبئی دیکھی بھی نہیں تھی پھر بھی اسے بم دھماکوں میں پھنسایا گیا۔


اصل گناہگار کون؟

فواد شاہین نے سوال کیا مذکورہ دھماکے میں دوسو سے زائد افراد ہلاک اور تقریبا سات سو افراد زخمی ہوئے، اس کے اصل مجرم کون ہیں اور کہاں ہیں؟ وہ کب تک گرفتار ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم سب اس سسٹم کے متاثر ہیں۔

عبدالواحد نے بتایا کہ جب یہاں ممتاز میر اپنی روداد بیان کررہے تھے تب میرے دماغ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پولس اور اے ٹی ایس کا ظلم سہتے ہوئے یہ سوال اٹھتا تھا کہ ہم بے گناہ ہیں، ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود ہمیں کیوں ٹارچر کیا جا رہا ہے؟

اس پریس کانفرنس میں شامل ہونے والوں میں ممتاز میر بھی تھے۔ متماز میر کو سنہ 1994 میں ٹاڈا کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، لیکن چند ماہ بعد ہی ممتاز میر کو باعزت بری کیا گیا تھا۔

ممتاز میر نے بتایا کہ وہ خاندانی قیدی بنے ہیں۔ ان کے والد دوبارہ اس سسٹم کے ظلم کا شکار ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے جوڈیشیل سسٹم میں کافی خامی ہے۔


مذکورہ مقدمہ پر نظر رکھنے والے خالد شیخ نے کہا کہ خوف کا ایسا ماحول ہے کہ کوئی سوال نہیں کرتا ۔ پچیس سال بعد کسی کو بری کردینا کون سا انصاف ہے ۔ یہ انصاف کی موت ہے ۔ ان کی عمر کے پچیس سال کون واپس کرے گا ؟ اس کا انصاف کون کرے گا؟

انو شینس نیٹورک کے شارب اقلیم علی نے کہا بم دھماکوں میں مرنے والوں اور جن کو فرضی طور پر ماخوذ کیا گیا دونوں کے غم میں فرق نہیں ہے؛ موجودہ دور میں انصاف کے پیمانوں کو تبدیل کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا جو اے ٹی ایس اور ممبئی کرائم برانچ نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ تفتیش خالص سائنسی طریقہ سے کیا جارہا ہے اس کے لیے لائی ڈٹیکٹر اور موبائل کال ریکارڈر کی بنیاد پر صحیح رخ پر تفتیش کرنے کا جھانسہ دیا گیا، لیکن عدالت میں ملزمین کے کال ریکارڈ کے ڈیٹا پیش ہی نہیں کیے گئے۔

Intro:Byte ..Wahid shaikh victim 7/11 blast



گیارہ جولائی 2006 ممبئی ٹرین بم دھماکہ کے سارے سزایافتہ بے گناہ : انو سینس نیٹورک

سماجی شخصیات نے دعویٰ کیا کہ پولس نے آسان ہدف کے تحت بے گناہوں کو ماخوذ کیا جبکہ اصل مجرم جو کوئی بھی ہیں انہیں جانے انجانے میں بچایا جارہا ہے

ممبئی : آج ممبئی کے مراٹھی پترکار سنگھ میں انوسینس نیٹ ورک کے بینر تلے 11 جولائی 2006 ممبئی ٹرین بم دھماکوں کی برسی کے موقع پر پریس کانفرنس کے ذریعہ مذکورہ بم دھماکوں میں ماخوذ کئے گئے 12 نوجوانوں کی بے گناہی کو مختلف دلائل کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ۔ سماجی شخصیات کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ بم دھماکہ جس میں دو سو سے زائد افراد مارے گئے تھے اور تقریبا سات سو زخمی ہوئے تھے اس کے اصل ملزمین کو پولس نے جانے انجانے میں بچایا ہے ۔ یہ ملک اور اس کے عوام کے حق میں نہیں ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ پولس پر دبائو تھا اور اسے ہر حال میں یہ دکھانا تھا کہ اس نے بم دھماکہ کے سارے ملزمین کو گرفتار کرلیا ہے اس لئے اس نے آسان ہدف کے طور پر بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے پوری کمیونٹی کو بدنام کیا ہے ۔
کئی سماجی خدمت گاروں نے بتایا کہ کس طرح پولس بے گناہوں کو ماخوذ کرتی ہے ۔ بقول جسٹس کاٹجو پولس کے کوئی سائنسی طریقہ تفتیش نہیں ہونے کے سبب دباؤ میں آکر چند نوجوانوں کو گرفتار کرلیتی ہے اور پھر ان کے تعلق سے فرضی کہانیاں گڑھتی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ بے گناہوں کی زندگی برسوں جیلوں کی نذر ہوجاتی ہے لیکن عدالت سے باعزت بری ہوجاتے ہیں ۔
عبدالواحد شیخ نے بتایا کہ ابھی تک سزایافتہ نوجوان اعلیٰ عدالت میں اپیل اس لئے نہیں کرپائے ہیں کیوں کہ دوسو صفحات پر مشتمل انتہائی اہم کاغذات اے ٹی ایس والے نہیں دے رہے ہیں اس لئے سزایافتہ افراد کیلئے اپیل نہیں کی جاسکی ہے ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ دراصل وہی کاغذات متاثر نوجوانوں کی بے گناہی کا ثبوت ہوسکتے ہیں اس لئے اسے دینے میں اے ٹی ایس آنا کانی کررہا ہے ۔
پریس کانفرنس میں بہار کے مدھوبنی سے آئی ہوئی کمال انصاری کی والدہ نے کہا کہ میرا بیٹا بے گناہ ہے اسے پولس رات کے دس بجے گھر میں سوتے ہوئے اٹھاکر لے گئی تھی ۔ انہون نے کہا کہ میرے بیٹا نے تو ممبئی دیکھا بھی نہیں تھا پھر بھی اسے بم دھماکوں میں ماخوذ کیا گیا ۔
فواد شاہین نے کہا یہ بات غور کرنے کی ہے کہ کون لوگ ہیں جو 13 سال بعد کیوں اس کو یاد کیا جارہا ہے ۔ مذکورہ بم دھماکوں میں صرف وہ متاثرین میں نہیں ہیں جو ہلاک یا زخمی ہوئے بلکہ پولس اور انتظامیہ نے ایک دیگر افراد کو متاثرین میں شامل کیا ۔ پولس نے آسان ہدف کے تحت ایک کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا ۔
اصل گناہگار کون؟ فواد شاہین نے سوال کیا مذکورہ دھماکے میں دوسو سے زائد افراد ہلاک اور تقریبا سات سو افراد زخمی ہوئے اس کے اصل مجرم کون ہیں اور کہاں ہیں وہ کب تک گرفتار ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم سب اس سسٹم کے متاثر ہیں ۔
عبدالواحد نے بتایا کہ جب یہاں ممتاز میر اپنی روداد بیان کررہے تھے تب میرے دماغ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پولس اور اے ٹی ایس کا ظلم سہتے ہوئے یہ سوال اٹھتا تھا کہ ہم بے گناہ ہیں ، ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے اس کے باوجود ہمیں کیوں ٹارچر کیا جا رہا ہے ؟ واحد شیخ نے موجودہ حالات کے تناظر میں کہا کہ احمد آباد میں ایک میٹنگ میں کے پی رگھوونشی شامل ہوئے اس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ پولس والوں پر کوئی سوال نہ اٹھایا جائے ۔ وہاں میٹنگ میں ایک کمیتی بنائی گئی جس کا نام ہے وکٹم آف اسٹیٹ
انیس سو چورانوے میں ٹاڈا کے تحت گرفتار ہونے والے ممتاز میر جو چند ماہ قبل ہی باعزت بری ہوئے ہیں انہوں نے اس موقع پر کہا کہ میں خاندانی بے گناہ قیدی ہوں میرے والد بھی دو بار اس نظام کے ظلم کا نشانہ بن چکے ہیں ۔
ممتاز میر نے سوال کیا کہ ہمارے یہاں کی جوڈیشیل سسٹم میں کافی خامی ہے یہی سبب ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ کرنے میں کہ ٹاڈا کا کیس کس عدالت میں چلایا جائے اس کا فیصلہ کرنے میں اسے چار سال لگ جاتے ہیں ۔
مذکورہ مقدمہ پر نظر رکھنے والے خالد شیخ نے کہا کہ خوف کا ایسا ماحول ہے کہ کوئی سوال نہیں کرتا ۔ پچیس سال بعد کسی کو بری کردینا کون سا انصاف ہے ۔ یہ انصاف کی موت ہے ۔ ان کی عمر کے پچیس سال کون واپس کرے گا ؟ اس کا انصاف کون کرے گا؟
انو شینس نیٹورک کے شارب اقلیم علی نے کہا بم دھماکوں میں مرنے والوں اور جن کو فرضی طور پر ماخوذ کیا گیا دونوں کے غم میں فرق نہیں ہے موجودہ دور میں انصاف کے پیمانوں کو تبدیل کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا جو اے ٹی ایس اور ممبئی کرائم برانچ نے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ تفتیش خالص سائنسی طریقہ سے کیا جارہا ہے اس کے لئے لائی ڈٹیکٹر اور موبائل کال ریکارڈر کی بنیاد پر سہی رخ پر تفتیش کرنے کا جھانسہ دیا گیا لیکن عدالت میں ملزمین کے کال ریکارڈ کے ڈیٹا پیش ہی نہیں کئے گئے ۔
11 جولائی دھماکہ کیس میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا ۔ اسی لئے جس جس ثبوت سے نوجوان بے گناہ ثابت ہو سکتے تھے اسے یا تو عدالت میں پیش ہی نہیں کیا گیا یا پھر منصف نے است قابل اعتنا ہی نہیں سمجھا ۔Body:گیارہ جولائی 2006 ممبئی ٹرین بم دھماکہ کے سارے سزایافتہ بے گناہ : انو سینس نیٹورک

سماجی شخصیات نے دعویٰ کیا کہ پولس نے آسان ہدف کے تحت بے گناہوں کو ماخوذ کیا جبکہ اصل مجرم جو کوئی بھی ہیں انہیں جانے انجانے میں بچایا جارہا ہے

ممبئی : آج ممبئی کے مراٹھی پترکار سنگھ میں انوسینس نیٹ ورک کے بینر تلے 11 جولائی 2006 ممبئی ٹرین بم دھماکوں کی برسی کے موقع پر پریس کانفرنس کے ذریعہ مذکورہ بم دھماکوں میں ماخوذ کئے گئے 12 نوجوانوں کی بے گناہی کو مختلف دلائل کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ۔ سماجی شخصیات کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ بم دھماکہ جس میں دو سو سے زائد افراد مارے گئے تھے اور تقریبا سات سو زخمی ہوئے تھے اس کے اصل ملزمین کو پولس نے جانے انجانے میں بچایا ہے ۔ یہ ملک اور اس کے عوام کے حق میں نہیں ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ پولس پر دبائو تھا اور اسے ہر حال میں یہ دکھانا تھا کہ اس نے بم دھماکہ کے سارے ملزمین کو گرفتار کرلیا ہے اس لئے اس نے آسان ہدف کے طور پر بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے پوری کمیونٹی کو بدنام کیا ہے ۔
کئی سماجی خدمت گاروں نے بتایا کہ کس طرح پولس بے گناہوں کو ماخوذ کرتی ہے ۔ بقول جسٹس کاٹجو پولس کے کوئی سائنسی طریقہ تفتیش نہیں ہونے کے سبب دباؤ میں آکر چند نوجوانوں کو گرفتار کرلیتی ہے اور پھر ان کے تعلق سے فرضی کہانیاں گڑھتی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ بے گناہوں کی زندگی برسوں جیلوں کی نذر ہوجاتی ہے لیکن عدالت سے باعزت بری ہوجاتے ہیں ۔
عبدالواحد شیخ نے بتایا کہ ابھی تک سزایافتہ نوجوان اعلیٰ عدالت میں اپیل اس لئے نہیں کرپائے ہیں کیوں کہ دوسو صفحات پر مشتمل انتہائی اہم کاغذات اے ٹی ایس والے نہیں دے رہے ہیں اس لئے سزایافتہ افراد کیلئے اپیل نہیں کی جاسکی ہے ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ دراصل وہی کاغذات متاثر نوجوانوں کی بے گناہی کا ثبوت ہوسکتے ہیں اس لئے اسے دینے میں اے ٹی ایس آنا کانی کررہا ہے ۔
پریس کانفرنس میں بہار کے مدھوبنی سے آئی ہوئی کمال انصاری کی والدہ نے کہا کہ میرا بیٹا بے گناہ ہے اسے پولس رات کے دس بجے گھر میں سوتے ہوئے اٹھاکر لے گئی تھی ۔ انہون نے کہا کہ میرے بیٹا نے تو ممبئی دیکھا بھی نہیں تھا پھر بھی اسے بم دھماکوں میں ماخوذ کیا گیا ۔
فواد شاہین نے کہا یہ بات غور کرنے کی ہے کہ کون لوگ ہیں جو 13 سال بعد کیوں اس کو یاد کیا جارہا ہے ۔ مذکورہ بم دھماکوں میں صرف وہ متاثرین میں نہیں ہیں جو ہلاک یا زخمی ہوئے بلکہ پولس اور انتظامیہ نے ایک دیگر افراد کو متاثرین میں شامل کیا ۔ پولس نے آسان ہدف کے تحت ایک کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا ۔
اصل گناہگار کون؟ فواد شاہین نے سوال کیا مذکورہ دھماکے میں دوسو سے زائد افراد ہلاک اور تقریبا سات سو افراد زخمی ہوئے اس کے اصل مجرم کون ہیں اور کہاں ہیں وہ کب تک گرفتار ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم سب اس سسٹم کے متاثر ہیں ۔
عبدالواحد نے بتایا کہ جب یہاں ممتاز میر اپنی روداد بیان کررہے تھے تب میرے دماغ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پولس اور اے ٹی ایس کا ظلم سہتے ہوئے یہ سوال اٹھتا تھا کہ ہم بے گناہ ہیں ، ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے اس کے باوجود ہمیں کیوں ٹارچر کیا جا رہا ہے ؟ واحد شیخ نے موجودہ حالات کے تناظر میں کہا کہ احمد آباد میں ایک میٹنگ میں کے پی رگھوونشی شامل ہوئے اس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ پولس والوں پر کوئی سوال نہ اٹھایا جائے ۔ وہاں میٹنگ میں ایک کمیتی بنائی گئی جس کا نام ہے وکٹم آف اسٹیٹ
انیس سو چورانوے میں ٹاڈا کے تحت گرفتار ہونے والے ممتاز میر جو چند ماہ قبل ہی باعزت بری ہوئے ہیں انہوں نے اس موقع پر کہا کہ میں خاندانی بے گناہ قیدی ہوں میرے والد بھی دو بار اس نظام کے ظلم کا نشانہ بن چکے ہیں ۔
ممتاز میر نے سوال کیا کہ ہمارے یہاں کی جوڈیشیل سسٹم میں کافی خامی ہے یہی سبب ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ کرنے میں کہ ٹاڈا کا کیس کس عدالت میں چلایا جائے اس کا فیصلہ کرنے میں اسے چار سال لگ جاتے ہیں ۔
مذکورہ مقدمہ پر نظر رکھنے والے خالد شیخ نے کہا کہ خوف کا ایسا ماحول ہے کہ کوئی سوال نہیں کرتا ۔ پچیس سال بعد کسی کو بری کردینا کون سا انصاف ہے ۔ یہ انصاف کی موت ہے ۔ ان کی عمر کے پچیس سال کون واپس کرے گا ؟ اس کا انصاف کون کرے گا؟
انو شینس نیٹورک کے شارب اقلیم علی نے کہا بم دھماکوں میں مرنے والوں اور جن کو فرضی طور پر ماخوذ کیا گیا دونوں کے غم میں فرق نہیں ہے موجودہ دور میں انصاف کے پیمانوں کو تبدیل کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا جو اے ٹی ایس اور ممبئی کرائم برانچ نے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ تفتیش خالص سائنسی طریقہ سے کیا جارہا ہے اس کے لئے لائی ڈٹیکٹر اور موبائل کال ریکارڈر کی بنیاد پر سہی رخ پر تفتیش کرنے کا جھانسہ دیا گیا لیکن عدالت میں ملزمین کے کال ریکارڈ کے ڈیٹا پیش ہی نہیں کئے گئے ۔
11 جولائی دھماکہ کیس میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا ۔ اسی لئے جس جس ثبوت سے نوجوان بے گناہ ثابت ہو سکتے تھے اسے یا تو عدالت میں پیش ہی نہیں کیا گیا یا پھر منصف نے است قابل اعتنا ہی نہیں سمجھا ۔Conclusion:گیارہ جولائی 2006 ممبئی ٹرین بم دھماکہ کے سارے سزایافتہ بے گناہ : انو سینس نیٹورک

سماجی شخصیات نے دعویٰ کیا کہ پولس نے آسان ہدف کے تحت بے گناہوں کو ماخوذ کیا جبکہ اصل مجرم جو کوئی بھی ہیں انہیں جانے انجانے میں بچایا جارہا ہے

ممبئی : آج ممبئی کے مراٹھی پترکار سنگھ میں انوسینس نیٹ ورک کے بینر تلے 11 جولائی 2006 ممبئی ٹرین بم دھماکوں کی برسی کے موقع پر پریس کانفرنس کے ذریعہ مذکورہ بم دھماکوں میں ماخوذ کئے گئے 12 نوجوانوں کی بے گناہی کو مختلف دلائل کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ۔ سماجی شخصیات کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ بم دھماکہ جس میں دو سو سے زائد افراد مارے گئے تھے اور تقریبا سات سو زخمی ہوئے تھے اس کے اصل ملزمین کو پولس نے جانے انجانے میں بچایا ہے ۔ یہ ملک اور اس کے عوام کے حق میں نہیں ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ پولس پر دبائو تھا اور اسے ہر حال میں یہ دکھانا تھا کہ اس نے بم دھماکہ کے سارے ملزمین کو گرفتار کرلیا ہے اس لئے اس نے آسان ہدف کے طور پر بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے پوری کمیونٹی کو بدنام کیا ہے ۔
کئی سماجی خدمت گاروں نے بتایا کہ کس طرح پولس بے گناہوں کو ماخوذ کرتی ہے ۔ بقول جسٹس کاٹجو پولس کے کوئی سائنسی طریقہ تفتیش نہیں ہونے کے سبب دباؤ میں آکر چند نوجوانوں کو گرفتار کرلیتی ہے اور پھر ان کے تعلق سے فرضی کہانیاں گڑھتی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ بے گناہوں کی زندگی برسوں جیلوں کی نذر ہوجاتی ہے لیکن عدالت سے باعزت بری ہوجاتے ہیں ۔
عبدالواحد شیخ نے بتایا کہ ابھی تک سزایافتہ نوجوان اعلیٰ عدالت میں اپیل اس لئے نہیں کرپائے ہیں کیوں کہ دوسو صفحات پر مشتمل انتہائی اہم کاغذات اے ٹی ایس والے نہیں دے رہے ہیں اس لئے سزایافتہ افراد کیلئے اپیل نہیں کی جاسکی ہے ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ دراصل وہی کاغذات متاثر نوجوانوں کی بے گناہی کا ثبوت ہوسکتے ہیں اس لئے اسے دینے میں اے ٹی ایس آنا کانی کررہا ہے ۔
پریس کانفرنس میں بہار کے مدھوبنی سے آئی ہوئی کمال انصاری کی والدہ نے کہا کہ میرا بیٹا بے گناہ ہے اسے پولس رات کے دس بجے گھر میں سوتے ہوئے اٹھاکر لے گئی تھی ۔ انہون نے کہا کہ میرے بیٹا نے تو ممبئی دیکھا بھی نہیں تھا پھر بھی اسے بم دھماکوں میں ماخوذ کیا گیا ۔
فواد شاہین نے کہا یہ بات غور کرنے کی ہے کہ کون لوگ ہیں جو 13 سال بعد کیوں اس کو یاد کیا جارہا ہے ۔ مذکورہ بم دھماکوں میں صرف وہ متاثرین میں نہیں ہیں جو ہلاک یا زخمی ہوئے بلکہ پولس اور انتظامیہ نے ایک دیگر افراد کو متاثرین میں شامل کیا ۔ پولس نے آسان ہدف کے تحت ایک کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا ۔
اصل گناہگار کون؟ فواد شاہین نے سوال کیا مذکورہ دھماکے میں دوسو سے زائد افراد ہلاک اور تقریبا سات سو افراد زخمی ہوئے اس کے اصل مجرم کون ہیں اور کہاں ہیں وہ کب تک گرفتار ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم سب اس سسٹم کے متاثر ہیں ۔
عبدالواحد نے بتایا کہ جب یہاں ممتاز میر اپنی روداد بیان کررہے تھے تب میرے دماغ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پولس اور اے ٹی ایس کا ظلم سہتے ہوئے یہ سوال اٹھتا تھا کہ ہم بے گناہ ہیں ، ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے اس کے باوجود ہمیں کیوں ٹارچر کیا جا رہا ہے ؟ واحد شیخ نے موجودہ حالات کے تناظر میں کہا کہ احمد آباد میں ایک میٹنگ میں کے پی رگھوونشی شامل ہوئے اس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ پولس والوں پر کوئی سوال نہ اٹھایا جائے ۔ وہاں میٹنگ میں ایک کمیتی بنائی گئی جس کا نام ہے وکٹم آف اسٹیٹ
انیس سو چورانوے میں ٹاڈا کے تحت گرفتار ہونے والے ممتاز میر جو چند ماہ قبل ہی باعزت بری ہوئے ہیں انہوں نے اس موقع پر کہا کہ میں خاندانی بے گناہ قیدی ہوں میرے والد بھی دو بار اس نظام کے ظلم کا نشانہ بن چکے ہیں ۔
ممتاز میر نے سوال کیا کہ ہمارے یہاں کی جوڈیشیل سسٹم میں کافی خامی ہے یہی سبب ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ کرنے میں کہ ٹاڈا کا کیس کس عدالت میں چلایا جائے اس کا فیصلہ کرنے میں اسے چار سال لگ جاتے ہیں ۔
مذکورہ مقدمہ پر نظر رکھنے والے خالد شیخ نے کہا کہ خوف کا ایسا ماحول ہے کہ کوئی سوال نہیں کرتا ۔ پچیس سال بعد کسی کو بری کردینا کون سا انصاف ہے ۔ یہ انصاف کی موت ہے ۔ ان کی عمر کے پچیس سال کون واپس کرے گا ؟ اس کا انصاف کون کرے گا؟
انو شینس نیٹورک کے شارب اقلیم علی نے کہا بم دھماکوں میں مرنے والوں اور جن کو فرضی طور پر ماخوذ کیا گیا دونوں کے غم میں فرق نہیں ہے موجودہ دور میں انصاف کے پیمانوں کو تبدیل کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا جو اے ٹی ایس اور ممبئی کرائم برانچ نے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ تفتیش خالص سائنسی طریقہ سے کیا جارہا ہے اس کے لئے لائی ڈٹیکٹر اور موبائل کال ریکارڈر کی بنیاد پر سہی رخ پر تفتیش کرنے کا جھانسہ دیا گیا لیکن عدالت میں ملزمین کے کال ریکارڈ کے ڈیٹا پیش ہی نہیں کئے گئے ۔
11 جولائی دھماکہ کیس میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا ۔ اسی لئے جس جس ثبوت سے نوجوان بے گناہ ثابت ہو سکتے تھے اسے یا تو عدالت میں پیش ہی نہیں کیا گیا یا پھر منصف نے است قابل اعتنا ہی نہیں سمجھا ۔
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.