ممبئی کے مراٹھی پترکار سنگھ میں انوسینس نیٹورک کے بینر تلے 11 جولائی 2006 کی ممبئی ٹرین بم دھماکے کی برسی کے موقع پر پریس کانفرنس کے ذریعے اس میں قصور ٹھہرائے گئے افراد کی بے گناہی پر مختلف دلائل پیش کیے۔
سماجی شخصیات کا دعویٰ ہے ٹرین بم دھماکے کے اصل مجرمین کو بچا لیا گیا ہے۔
دراصل 11 جولائی 2006 میں ہونے والے ٹرین دھماکے میں تقریبا 200 افراد مارے گئے تھے، جبکہ 700 سے زخمی ہوئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ پولیس پر دباؤ تھا اور اسے ہر حال میں یہ دکھانا تھا کہ اس نے بم دھماکہ کے سارے ملزمین کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس لیے اس نے آسان ہدف کے طور پر بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے پوری کمیونٹی کو بدنام کیا ہے۔
کئی سماجی خدمت گاروں نے بتایا کہ کس طرح پولیس بے گناہوں کو ماخوذ کرتی ہے۔ بقول جسٹس کاٹجو پولیس کا کوئی سائنسی طریقہ تفتیش نہیں ہونے کے سبب دباؤ میں آکر چند نوجوانوں کو گرفتار کرلیتی ہے اور پھر ان کے تعلق سے فرضی کہانیاں گڑھتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بے گناہوں کی زندگی برسوں جیلوں کی نذر ہوجاتی ہے، پھر عدالت سے بری ہو جاتے ہیں۔
عبدالواحد شیخ نے بتایا کہ ابھی تک سزایافتہ نوجوان اعلیٰ عدالت میں اپیل اس لیے نہیں کرپائے ہیں، کیوں کہ 200 صفحات پر مشتمل انتہائی اہم کاغذات اے ٹی ایس والے نہیں دے رہے ہیں۔ جس کی بنیاد پر سزایافتہ افراد کے لیے اپیل نہیں کی جاسکی ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ دراصل وہی کاغذات متاثر نوجوانوں کی بے گناہی کا ثبوت ہوسکتے ہیں اس لیے اسے دینے میں اے ٹی ایس آنا کانی کر رہی ہے۔
پریس کانفرنس میں بہار کے مدھوبنی سے آئی ہوئی کمال انصاری کی والدہ نے کہا کہ 'میرا بیٹا بے گناہ ہے اسے پولیس رات کے دس بجے گھر سے اٹھاکر لے گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 'میرے بیٹے نے تو ممبئی دیکھی بھی نہیں تھی پھر بھی اسے بم دھماکوں میں پھنسایا گیا۔
اصل گناہگار کون؟
فواد شاہین نے سوال کیا مذکورہ دھماکے میں دوسو سے زائد افراد ہلاک اور تقریبا سات سو افراد زخمی ہوئے، اس کے اصل مجرم کون ہیں اور کہاں ہیں؟ وہ کب تک گرفتار ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم سب اس سسٹم کے متاثر ہیں۔
عبدالواحد نے بتایا کہ جب یہاں ممتاز میر اپنی روداد بیان کررہے تھے تب میرے دماغ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پولس اور اے ٹی ایس کا ظلم سہتے ہوئے یہ سوال اٹھتا تھا کہ ہم بے گناہ ہیں، ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود ہمیں کیوں ٹارچر کیا جا رہا ہے؟
اس پریس کانفرنس میں شامل ہونے والوں میں ممتاز میر بھی تھے۔ متماز میر کو سنہ 1994 میں ٹاڈا کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، لیکن چند ماہ بعد ہی ممتاز میر کو باعزت بری کیا گیا تھا۔
ممتاز میر نے بتایا کہ وہ خاندانی قیدی بنے ہیں۔ ان کے والد دوبارہ اس سسٹم کے ظلم کا شکار ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے جوڈیشیل سسٹم میں کافی خامی ہے۔
مذکورہ مقدمہ پر نظر رکھنے والے خالد شیخ نے کہا کہ خوف کا ایسا ماحول ہے کہ کوئی سوال نہیں کرتا ۔ پچیس سال بعد کسی کو بری کردینا کون سا انصاف ہے ۔ یہ انصاف کی موت ہے ۔ ان کی عمر کے پچیس سال کون واپس کرے گا ؟ اس کا انصاف کون کرے گا؟
انو شینس نیٹورک کے شارب اقلیم علی نے کہا بم دھماکوں میں مرنے والوں اور جن کو فرضی طور پر ماخوذ کیا گیا دونوں کے غم میں فرق نہیں ہے؛ موجودہ دور میں انصاف کے پیمانوں کو تبدیل کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا جو اے ٹی ایس اور ممبئی کرائم برانچ نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ تفتیش خالص سائنسی طریقہ سے کیا جارہا ہے اس کے لیے لائی ڈٹیکٹر اور موبائل کال ریکارڈر کی بنیاد پر صحیح رخ پر تفتیش کرنے کا جھانسہ دیا گیا، لیکن عدالت میں ملزمین کے کال ریکارڈ کے ڈیٹا پیش ہی نہیں کیے گئے۔