مسجدوں، میناروں، مدرسوں اور محنت کش مزدوروں کے مسلم اکثریتی شہر مالیگاؤں 8 ستمبر 2006 کو سلسلہ وار بم دھماکوں سے لرز اٹھا تھا۔
ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی سے 290 کلو میٹر دور واقع پاورلوم کارخانوں کے اس صنعتی شہر مالیگاؤں میں ایشیاء کا سب سے بڑا قبرستان کہلائے جانے والے بڑے قبرستان کے مین گیٹ، بڑا قبرستان احاطے میں واقع حمیدیہ مسجد اور بڑا قبرستان کے عقبی گیٹ سے متصل مشاورت چوک پر شدت پسندوں نے 8 ستمبر 2006ء کو عین نماز جمعہ کے بعد جب لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کر رہے تھے، سلسلے وار خوفناک دھماکے کیے۔
اس تعلق سے بڑا قبرستان انتظامیہ کے صدر ایڈوکیٹ نیاز لودھی نے نمائندے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ شب برأت بم دھماکے، جس کی گونج نہ صرف پورے بھارت بلکہ پوری دنیا میں سنی گئی۔
اس خوفناک بم دھماکوں میں 38 سے زائد نمازی شہید ہوئے جن میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔ اسی طرح ان سلسلہ وار بم دھماکوں میں 250 سے زائد افراد شدید طور پر زخمی ہوئے تھے۔
اس حادثہ کے بعد اس وقت کے وزیراعلی ولاس راؤ دیشمکھ، سونیا گاندھی، وزیر دفاع شیواجی راؤ پاٹل نے مالیگاؤں کا دورہ کیا اور آزاد نگر پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کروایا گیا۔ اسی بنیاد پر اے ٹی ایس نے ان بم دھماکوں کے الزام میں شہر کے ہی 9 بے قصور اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کر دیا۔
اس سلسلے میں جمعیۃ علماء مالیگاؤں، جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی)، جمعیۃ علماء مہاراشٹر لیگل سیل (ارشد مدنی) کی بے پناہ قانونی کوششوں کی وجہ سے لگ بھگ ساڑھے پانچ سال بعد ضمانت پر رہائی ملی اور پھر ان کو ان بم دھماکوں سے باعزت بری کرنے کے احکامات کورٹ کے ذریعے دیے گئے لیکن افسوس کہ حکومت وقت ان نوجوانوں کے باعزت بری کئے جانے کے نچلی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں اپیل داخل کئے ہوئے ہیں جس کی سماعت تادم تحریر شروع ہے۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے اعلان کیا کہ حکومت وقت کی ممبئی ہائی کورٹ میں کی گئی اپیل کا دفاع کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مالیگاؤں شب برأت بم دھماکوں کے الزام میں جب شہر کے ہی 9 بے قصور مسلم نو جوانوں کو گرفتار رکھا گیا تو مالیگاؤں کے مسلمانوں نے انصاف کے لیے گلی سے دہلی تک کو ہلا کر رکھ دیا۔
جمعیۃ علما ء مالیگاؤں (ارشد مدنی) کے صدر مفتی محمد اسماعیل قاسمی، ایڈوکیٹ ایس ایس شیخ، حاجی محمد مکی سیٹھ، عبدالمالک سیٹھ بکرا، عبدالخالق فارقلیط نے ان نوجوانوں کی رہائی کے لیے رات دن ایک کر دیئے۔ دوسری طرف شہر کی تمام مکتب فکر کے نمائندوں پر مشتمل ایک کل جماعتی تنظیم تشکیل دی گئی۔
صوفی غلام رسول قادری، مولانا عبدالقیوم قاسمی، مولانا عبدالباری، مولانا عبدالحمیدازہری، مولانا شکیل احمد مفتی، مولانا فیروز اعظمی سمیت نے کل جماعتی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ان 9 محروسین کی رہائی اور بم دھماکوں کے اصل ملزمین کی گرفتاری کے لیے شب و روز کوشاں رہے۔
اس ضمن میں 9 محروسین میں سے ایک سلمان فارسی نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بم دھماکوں کے متاثرین، محروسین اور زخمیوں کے نام پر چندہ جمع کیا گیا لیکن آج تک ان کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، نہ ہی ان کے مسائل کو حل کیا گیا۔
بم دھماکہ میں جان گنوانے والے افراد کے وارثین میں سے ایک محمد عارف نے بتایا کہ 8 ستمبر 2006 میں سلسلہ وار ہونے والے بم دھماکوں میں ان کا بیٹا بھی شہید ہوگیا تھا۔ اس وقت حکومت نے انہیں ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا لیکن آج تک وہ انصاف کے منتظر ہیں۔ بڑا قبرستان کے اطراف موجود دکانداروں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ بم دھماکوں کے بعد شب برات کی رونق ہی ختم ہوگئی ہے۔ اب بھی شب برات کے موقع پر زیادہ مال نہیں لاتے جو موجود ہوتا ہے اسی کو فروخت کرکے شب برات کا سیزن کر لیتے ہیں۔
آج 28 مارچ 2021 شب برأت کے روز 8 ستمبر 2006 بڑے قبرستان، حمیدیہ مسجد اور مشاورت چوک پر ہونے والے بم دھماکوں کی یاد تازہ ہوئی کیونکہ 8 ستمبر 2006 کو شب برأت کا ہی دن تھا۔ ضلع پولیس انتظامیہ اور مالیگاؤں پولیس انتظامیہ بم دھماکوں کے بعد سے آنے والی شب برأت کے موقع پر ہر چھوٹے بڑے قبرستانوں اور مساجد پر خصوصی بندو بست رکھا جا تا ہے جو کہ روایتی بندوبست میں تبدیل ہو گیا۔ آج بم دھماکوں کے 15 سال گزر چکے ہیں لیکن ان کی ہولناکی، خوفناکی اور انسانی تباہی کے مناظر آج بھی لوگوں کے ذہن و دماغ میں گھوم رہے ہیں۔ مطالبہ یہی ہے کہ ان بم دھماکوں کے اصل ملزمین کو بے نقاب کر کے انھیں گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔