بھوپال:ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کے ریٹائرڈ ڈی آئی جی ایم ڈبلیو انصاری نے اتر پردیش میں عتیق احمد اور اس کے بھائی اشفاق احمد پر پولیس کسٹڈی میں ہوئے قتل پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت افسوس ناک ہے کہ پولیس کی کسٹڈی میں کسی کا قتل ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا اسے کسٹوڈیل ڈیتھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ اگر پولیس کسٹڈی میں کسی کا قتل ہوتا ہے تو لائن آرڈر پوری طرح سے ختم ہو جاتا ہے۔عتیق احمد ایک ملزم تھا اسے آپ پھانسی کی سزا دیتے لیکن ہمارا آئین کہتا ہے کہ جو بھی کچھ ہو تو وہ قانونی طور پر ہو ورنا عدلیہ، مقننہ اور ایگزیکٹیو قرارداد پر سے لوگوں کا بھروسہ اٹھ جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے۔وہ ڈیموکریسی کا قتل ہے۔جو بھی ملزمان وہ پولیس کی گاڑی میں آئے اور 13 گولیاں چلائیں اور ساتھ میں میڈیا کا آئی ڈی کارڈ بھی لے کر آئے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب پلانی کے ساتھ کام کیا گیا ہے۔ یہاں پر محکمہ پولیس کے ساتھ صوبائی حکومت پر بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہے کہ یہ سب ملی بھگت ہے۔
ریٹائرڈ ڈی آئی جی ایم ڈبلیو انصاری نے کہا کہ عتیق احمد کے قتل کے چوبیس گھنٹے پہلے اس کے بیٹے اسد احمد کا بھی انکاونٹر کر دیا گیا جو کی عوام کے نظر میں آگیا ہے۔ عتیق احمد اور اس کے بھائی نے سپریم کورٹ میں اپنی حفاظت کے لئے پٹیشن دائر کی تھی جس پر انہیں سپریم کورٹ کے ذریعہ کہا گیا کہ آپ پولیس کی کسٹڈی میں ہے۔ اس لئے آپ کو حفاظتی انتظام کی ضرورت نہیں ہے۔ اترپردیش میں جس طرح کے حالات ہیں اس میں دفع 356 کے تحت صوبائی حکومت کو تحلیل کر مرکزی حکومت کو کمان سنبھالنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:Atiq Ahmed Murder Case مدھیہ پردیش کے وزیر نے عتیق اور اشرف کے قتل کو درست قرار دیا
ان کا کہنا ہے کہ عتیق احمد قتل معاملے پر سبھی نیشنل لیڈران نے سوال کھڑے کیے ہیں۔ انہوں نے کہا وہی عتیق احمد اور اس کے بھائی کے قتل کے بعد اتر پردیش میں کچھ خاص پارٹی کے لوگ اس پر جشن منا رہے ہیں اور اس کو کمینل اینگل دینے کی کوشش کر رہے۔ ایم ڈبلیو انصاری نے پھر اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ اگر عتیق احمد اور اس کا بھائی ملزم تھا تو اس کو یقینا سخت سے سخت سزا ملنا چاہیے تھی لیکن اس طرح سے پولیس کے سامنے اس طرح سے قتل ہو جانا پورے لائن آرڈر پر سوال کھڑا ہو جاتا ہے۔