ETV Bharat / state

Naeem Kausar passed away معروف افسانہ نگار نعیم کوثر کا انتقال - ادبی حلقوں میں سوگ کی لہر

اردو کے معروف وہ معتبر ادیب، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور صحافی نعیم کوثر کا طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا، نعیم کوثر کو بعد نماز جمعہ بڑا باغ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ اس کے انتقال سے اردو حلقے میں غم کی لہر ہے۔After the death of Naeem Kausar, there is a wave of mourning in the literary circles

نعیم کوثر کا انتقال
نعیم کوثر کا انتقال
author img

By

Published : Jan 7, 2023, 5:46 PM IST

ادیب

بھوپال: مدھیہ پردیش ہی نہیں بلکہ بھارت کے مشہور و معروف افسانہ نگار نعیم کوثر کا طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ نعیم کوثر کو بعد نماز جمعہ بھوپال کے بڑا باغ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ اس موقع پر مدھیہ پردیش کے معروف ادیب کوثر صدیقی نے کہا نعیم کوثر ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے بڑے نیک اور عظیم ہستی تھے۔ ان سے ہمارا گہرا تعلق تھا اور لمبے وقت سے افسانہ نگاری کر رہے تھے۔ اور پھر ہندوستان میں انہوں نے افسانہ نگاری میں اپنا نام روشن کیا۔After the death of Naeem Kausar, there is a wave of mourning in the literary circles

انہوں نے کہا ان کے والد کوثر چاند پوری بہت بڑے افسانہ نگار تھے اور نعیم کوثر نے ان کی وراثت کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے کہا لیکن افسوس کی بات ہے کہ اب نعیم کوثر کے خاندان میں کوئی ایسا نہیں ہے جو ان کی وراثت کو آگے بڑھائیں۔


نعیم کوثر کے انتقال پر ممتاز شاعر اعظم خان نے کہا بھوپال شہر، شہر غزل کے نام سے مشہور ضرور ہے۔ مگر افسانوی ادب میں دیکھا جائے تو نعیم کوثر کا ایک بڑا نام تھا جن کی وجہ سے بھوپال پہچانا جاتا تھا اور وہ لوگ جو افسانوی ادب پر نظر رکھتے تھے جس کی وجہ سے بھوپال شہر کی شہرت تھی اب وہ دھیرے دھیرے ہم سے رخصت ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا نعیم کوثر کا یوں چلے جانا ادب کا بہت بڑا خسارہ ہے۔جسے پر یقین کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔ جب کہ اس سلسلے میں لوگ کوشش ضرور کریں گے کہ ان کا نام نامی ہمیشہ قائم رہے۔ ڈاکٹر اعظم نے کہا نعیم کوثر نے اپنے والد کوثر چاند پوری کی روایت کو قائم رکھا تھا۔ ہمیں ان کے سانحہ ارتحال پر بہت افسوس ہے جس سے بھوپال کا ادبی ماحول بہت غمگین ہے۔


اس موقع پر ان کے قریبی دوست اور ممتاز ادیب انعام لودھی نے کہا میرا ان سے تعلق تب سے تھا جب ہم ایک ساتھ اسکول میں پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا ان سے ہمارے گھریلو تعلقات تھے اور ان کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح تھی۔ انہوں نے کہا نعیم کوثر اپنے آپ میں نایاب افسانہ نگار تھے۔ انہوں نے کہا نعیم کوثر ایک طرح سے میرے استاد کی طرح تھے وہ کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی تھے اور بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ ان کے انتقال پر جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔
بھوپال کے ممتاز صحافی اور ادیب عارف عزیز نے کہا نعیم کوثر ایک بہترین صحافی، ادیب، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار تھے۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک بڑے باپ کے بیٹے تھے۔ کیوں کہ جتنے بڑے افسانہ نگار ان کے والد کوثر چاند پوری تھے اتنے بہترین افسانہ نگار نعیم کوثر تھے۔ ان کی اردو ادب کے لئے بڑی خدمات رہی ہے ساتھ ہی انہوں نے مختلف شعبوں میں نمایاں کاموں کو انجام دیے ہیں۔ نعیم کوثر کے ذریعے نئی نسل کی تربیت بھی کی گئی صحافت میں انہوں نے کام کیا اور لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ نعیم کوثر نے "آفتاب جدید" میں بھی اپنی خدمت انجام دی تھی۔ اور اس کے بعد اپنا خود کا بھی اخبار نکالا انہوں نے کہا ہمیں بہت غم ہے کہ ہمارے سر سے اچھے اچھے بزرگوں کا سایہ اٹھتا جا رہا ہے ۔


نعیم کوثر کی بات کی جائے تو ان کا اصل نام سید محی الدین اختر اور قلمی نام نعیم کوثر تھا۔ نعیم کوثر کی پیدائش 15 ستمبر 1936 کو بیگم گنج ضلع رائسین مدھیہ پردیش میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم بھوپال سے اور اعلی تعلیم آگرہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ نعیم کوثر نے 1957 میں بی کام کی ڈگری حاصل کی 1962 میں مدھیہ پردیش میں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوئے اور 1994 میں مدھیہ پردیش ہاؤسنگ بورڈ بھوپال میں ایڈمنسٹریٹر آفیسر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ نعیم کوثر ممتاز افسانہ نگار کوثر چاند پوری کے فرزند تھے۔ نعیم کوثر نے اپنے والد محترم کی تخلیقی نظم و ضبط سے شعور آگاہی حاصل کی اور محض 13 سال کی عمر میں پہلی کہانی "یتیم بچے کی عید" کے نام سے لکھی۔ 1949 نعیم کوثر نے طویل کہانی ناول "ہونہار شہزادہ" لکھا۔ 1950 سے لے کر 2010 کے بیچ 655 افسانے لکھے تھے۔ ان میں سے بیشتر ہندو پاک کے موقر جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ نعیم کوثر نے افسانوں کے ساتھ کامیاب ڈرامے بھی لکھے تھے۔ انہوں نے 1970 سے 1971 کے درمیان معاشرتی اصلاح پر دس کے قریب ڈرامے لکھے اور یہ سب ڈرامے وقت پر آل انڈیا ریڈیو بھوپال اردو سروس سے نشر کیے جا چکے ہیں۔

مزید پڑھیں:Samuel Ahmed Passes Away مشہور افسانہ و ناول نگار شموئل احمد کا انتقال

ادیب

بھوپال: مدھیہ پردیش ہی نہیں بلکہ بھارت کے مشہور و معروف افسانہ نگار نعیم کوثر کا طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ نعیم کوثر کو بعد نماز جمعہ بھوپال کے بڑا باغ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ اس موقع پر مدھیہ پردیش کے معروف ادیب کوثر صدیقی نے کہا نعیم کوثر ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے بڑے نیک اور عظیم ہستی تھے۔ ان سے ہمارا گہرا تعلق تھا اور لمبے وقت سے افسانہ نگاری کر رہے تھے۔ اور پھر ہندوستان میں انہوں نے افسانہ نگاری میں اپنا نام روشن کیا۔After the death of Naeem Kausar, there is a wave of mourning in the literary circles

انہوں نے کہا ان کے والد کوثر چاند پوری بہت بڑے افسانہ نگار تھے اور نعیم کوثر نے ان کی وراثت کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے کہا لیکن افسوس کی بات ہے کہ اب نعیم کوثر کے خاندان میں کوئی ایسا نہیں ہے جو ان کی وراثت کو آگے بڑھائیں۔


نعیم کوثر کے انتقال پر ممتاز شاعر اعظم خان نے کہا بھوپال شہر، شہر غزل کے نام سے مشہور ضرور ہے۔ مگر افسانوی ادب میں دیکھا جائے تو نعیم کوثر کا ایک بڑا نام تھا جن کی وجہ سے بھوپال پہچانا جاتا تھا اور وہ لوگ جو افسانوی ادب پر نظر رکھتے تھے جس کی وجہ سے بھوپال شہر کی شہرت تھی اب وہ دھیرے دھیرے ہم سے رخصت ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا نعیم کوثر کا یوں چلے جانا ادب کا بہت بڑا خسارہ ہے۔جسے پر یقین کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔ جب کہ اس سلسلے میں لوگ کوشش ضرور کریں گے کہ ان کا نام نامی ہمیشہ قائم رہے۔ ڈاکٹر اعظم نے کہا نعیم کوثر نے اپنے والد کوثر چاند پوری کی روایت کو قائم رکھا تھا۔ ہمیں ان کے سانحہ ارتحال پر بہت افسوس ہے جس سے بھوپال کا ادبی ماحول بہت غمگین ہے۔


اس موقع پر ان کے قریبی دوست اور ممتاز ادیب انعام لودھی نے کہا میرا ان سے تعلق تب سے تھا جب ہم ایک ساتھ اسکول میں پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا ان سے ہمارے گھریلو تعلقات تھے اور ان کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح تھی۔ انہوں نے کہا نعیم کوثر اپنے آپ میں نایاب افسانہ نگار تھے۔ انہوں نے کہا نعیم کوثر ایک طرح سے میرے استاد کی طرح تھے وہ کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی تھے اور بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ ان کے انتقال پر جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔
بھوپال کے ممتاز صحافی اور ادیب عارف عزیز نے کہا نعیم کوثر ایک بہترین صحافی، ادیب، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار تھے۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک بڑے باپ کے بیٹے تھے۔ کیوں کہ جتنے بڑے افسانہ نگار ان کے والد کوثر چاند پوری تھے اتنے بہترین افسانہ نگار نعیم کوثر تھے۔ ان کی اردو ادب کے لئے بڑی خدمات رہی ہے ساتھ ہی انہوں نے مختلف شعبوں میں نمایاں کاموں کو انجام دیے ہیں۔ نعیم کوثر کے ذریعے نئی نسل کی تربیت بھی کی گئی صحافت میں انہوں نے کام کیا اور لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ نعیم کوثر نے "آفتاب جدید" میں بھی اپنی خدمت انجام دی تھی۔ اور اس کے بعد اپنا خود کا بھی اخبار نکالا انہوں نے کہا ہمیں بہت غم ہے کہ ہمارے سر سے اچھے اچھے بزرگوں کا سایہ اٹھتا جا رہا ہے ۔


نعیم کوثر کی بات کی جائے تو ان کا اصل نام سید محی الدین اختر اور قلمی نام نعیم کوثر تھا۔ نعیم کوثر کی پیدائش 15 ستمبر 1936 کو بیگم گنج ضلع رائسین مدھیہ پردیش میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم بھوپال سے اور اعلی تعلیم آگرہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ نعیم کوثر نے 1957 میں بی کام کی ڈگری حاصل کی 1962 میں مدھیہ پردیش میں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوئے اور 1994 میں مدھیہ پردیش ہاؤسنگ بورڈ بھوپال میں ایڈمنسٹریٹر آفیسر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ نعیم کوثر ممتاز افسانہ نگار کوثر چاند پوری کے فرزند تھے۔ نعیم کوثر نے اپنے والد محترم کی تخلیقی نظم و ضبط سے شعور آگاہی حاصل کی اور محض 13 سال کی عمر میں پہلی کہانی "یتیم بچے کی عید" کے نام سے لکھی۔ 1949 نعیم کوثر نے طویل کہانی ناول "ہونہار شہزادہ" لکھا۔ 1950 سے لے کر 2010 کے بیچ 655 افسانے لکھے تھے۔ ان میں سے بیشتر ہندو پاک کے موقر جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ نعیم کوثر نے افسانوں کے ساتھ کامیاب ڈرامے بھی لکھے تھے۔ انہوں نے 1970 سے 1971 کے درمیان معاشرتی اصلاح پر دس کے قریب ڈرامے لکھے اور یہ سب ڈرامے وقت پر آل انڈیا ریڈیو بھوپال اردو سروس سے نشر کیے جا چکے ہیں۔

مزید پڑھیں:Samuel Ahmed Passes Away مشہور افسانہ و ناول نگار شموئل احمد کا انتقال

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.