جواہر لال نہرو یونیورسٹی ہوسٹل کے دستور اور فیس میں اضافہ کے پیش نظر اندور میں بھی خاموشی سے تختیوں پر نعرے لکھ کر احتجاج کیا گیا، جس میں شہر کی مختلف تنظیموں روشن خیال لوگوں ادبیوں اور صحافیوں نے حصہ لیا۔ ان تمام لوگوں نے حکومت کے فیصلے پر ناراضگی ظاہر کی اور حکومت کی تعلیمی پالیسی پر سوال اٹھائے۔
احجاجیوں نے کہا کہ اگر بھارت کے شہریوں کو تعلیم لینے کے لیے قرض لینا پڑے تو ملک قرضدار ہی بنے گا۔ مفت تعلیم آئینی حق ہے۔
اس موقع پر سینئر ایڈوکیٹ آنند موہن ماتھر نے کہا کی جے-این-یو ملک کا بہترین و ترین ادارہ ہے جو ملک کو نایاب شخصیات دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں سے نکلے بچے دنیا کے ہر شعبوں میں اپنا نام روشن کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ اس ادارے میں پڑھنے والے بچے آنے والے مستقبل میں ہمارے لیے پریشانیوں کا سبب بنے کیونکہ یہاں پڑھنے والے ہر طلباء کی سوچ اس کا نظریہ اور خیالات علحیدہ ہوتی ہے۔
آنند موہن ماتھر نے مذید کہا کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے وہ جے-این-یو پر نقطہ چینی کر رہی ہے۔
سماجی کارکن اروند پور وال کا کہنا تھا کہ جے این یو میں فیس اور دیگر روایتوں کو لیکر جو لڑائی پورے ملک میں لڑائی جا رہی ہے یہ اصل میں حکومت کی جانب سے غیر ذمہدارانہ ہے۔ یہاں یہ لڑائی وائس چاسلر کے اپائنمنٹ کے بعد شروع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پورا ملک جے-این-یو طلباٗ کی واجب مطالبہ کے ساتھ ہے۔