بھوپال: ریاست مدھیہ پردیش میں مارچ سنہ 2020 میں جیوترادتیہ سندھیا کے ساتھ 22 اراکین اسمبلی کانگریس چھوڑ کر بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر انہوں نے الیکشن بھی لڑا اور زیادہ تر لیڈران نے جیت درج کی جن میں سے 8 وزیر بھی بنے۔ انہیں بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوئے تین سال ہونے والے ہیں لیکن اب بھی تال میل نہیں ہوپارہا ہے۔ کہیں تحریری جنگ تو کہیں کھلے عام بیان بازی جاری ہے۔ جب میڈیا نے کانگریس چھوڑ کر بھارتی جنتا پارٹی میں شامل ہونے والے اراکین اسمبلی کے اسمبلی حلقوں میں سروے کیا کہ پارٹی کے ساتھ ان کا کتنا تال میل ہے دریافت کیا تو انہیں زیادہ تر جگہوں پر 'نہیں' میں جواب ملا۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کانگریس سے بھارتی جنتا پارٹی میں آنے والے ان لیڈروں کی وجہ سے بھارتی جنتا پارٹی کے ان لیڈروں کی سیاسی بالادستی خطرے میں پڑگئی جن کی اپنے علاقے میں ایک طرف حکومت تھی۔ اس کی سب سے بڑی مثال سابق وزیر صحت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر ڈاکٹر گوری شنکر شیجوار ہے۔ وزیر صحت ڈاکٹر پربھو رام چودھری اور ڈاکٹر شیجوار نے رائیسن ضلع کے سانچی سے ایک دوسرے کے خلاف 6 الیکشن لڑے ہیں۔ اب پر بھو رام چودھری اور شیجوار ایک ہی پارٹی میں ہیں۔ چودھری وزیر ہے اور شیجوار حاشیے پر ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے نکالے جانے کے بعد راجکمار دھنورا نے وزیر راجپوت کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ وزیر گووند سنگھ راجپوت کو ان کے سسرال والوں کی جانب سے دی گئی 50 ایکڑ زمین کا معاملہ منظر عام پر آیا ہے۔
گووند سنگھ راجپوت ساگر ضلع کے سورکھی سے رکن اسمبلی اور ریاستی حکومت میں وزیر ریونیو اور ٹرانسپورٹ ہے۔ جو سندھیا کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ نومبر 2021 کے ضمنی انتخاب کے بعد سے ان کی سیاسی بالادستی کی جنگ راجکمار سنگھ ٹھاکر دھنوارا کے ساتھ چل رہی ہے۔ وزیر بھوپیندر سنگھ کے رشتہ دار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے کسان مورچہ کے ضلع صدر ہیں۔ واضح رہے کہ بھارتی جنتا پارٹی کی یہ سیاسی ہلچل اس وجہ سے سامنے آرہی ہے کہ اس سال ہونے والے اسمبلی انتخابات قریب ہے اور اب یہ دیکھنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے پرانے لیڈران اور سندھیا کے حامی لیڈران کو کتنا اور کیسے موقع دیں گی ۔
یہ بھی پڑھیں : BJP Leader Suicide In Vidisha بی جے پی لیڈر نے بیوی اور دو بیٹوں کے ساتھ کھایا زہر، چاروں کی موت