محکمہ صحت کی ایک بڑی لاپرواہی اس وقت سامنے آئی جب ایک مریض کو دو بار مردہ قرار دے دیا گیا۔ ساتھ ہی کسی اور مریض کی لاش اس مریض کے گھر والوں کو بھیج دی گئی۔ جب اہل خانہ نے لاش دیکھی تو وہ حیران رہ گئے، کیونکہ یہ لاش کسی دوسرے مریض کی تھی۔ معاملہ سلطانیہ کے رہائشی کورونا سے متاثر مریض گورے لال کوری کا ہے۔
دراصل گورے لال کی کورونا کی رپورٹ مثبت آئی تھی، جس کے بعد انہیں علاج کے لئے اٹل بہاری واجپئی میڈیکل کالج میں داخل کرایا گیا تھا۔ علاج کے دوران ایک دن پہلے جہاں رات کے وقت مریض کی حالت نازک بتائی گئی تھی۔ اس کے بعد 13 اپریل کی دیر رات گورے لال کو مردہ بتا دیا گیا۔
گورے لال کی موت کی خبر ملتے ہی اہل خانہ خوفزدہ ہو کر اسپتال پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے مریض کی آخری سانسیں چل رہی ہیں۔ اہل خانہ نے ڈاکٹروں سے بہتر علاج کا مطالبہ کیا، لیکن 14 اپریل بدھ کی صبح ساڑھے آٹھ بجے ڈاکٹر کا ایک بار پھر فون آیا۔ اس بار بھی ڈاکٹر نے مریض کی موت کی خبر لواحقین کو دی۔
جب مریض کے بیٹے نے لاش دیکھنے کا اصرار کیا تو پتہ چلا کہ یہ کسی اور کی لاش تھی۔ جانچ پڑتال کی گئی تو ان کے مریض کی حالت نازک تھی اور آئسولیشن وارڈ میں داخل تھے، جبکہ منگل کی رات میں ہی وزیر صحت نے مریضوں کے اچھے علاج کے لئے محکمہ صحت کو خبردار کیا تھا۔ اس مسئلے پر اب بہت سارے سوالات پیدا ہو رہے ہیں کہ کورونا کے نام پر محکمہ صحت یہ کون سا کھیل کھیل رہا ہے۔ متاثرہ افراد کے اہل خانہ نے بھی اس کی شکایت کی، لیکن سب بے اثر رہا۔
گورے لال کے بیٹے کیلاش نے بتایا کہ محکمہ صحت نے ہمیں کافی دیر تک غفلت میں ڈالے رکھا، جب ہم نے لاش دیکھی تو حقیقت سامنے آگئی۔ ابھی ان کے والد کی حالت تشویشناک ہے، اور وہ آئسولیشن وارڈ میں بھرتی ہیں۔
کیلاش نے بتایا کہ اس معاملے میں بھی شکایت کی گئی، لیکن کارروائی کے نام پر کچھ نہیں کیا ہو سکا۔ کیلاش نے بتایا کہ ان کے والد گورے لال بھوپال میں ریلوے پوسٹ ڈپارٹمنٹ میں پوسٹ مین ہیں۔
مریض کے بیٹے نے بتایا کہ دو دن پہلے ان کی طبیعت زیادہ خراب بتا رہے تھے۔ اس کے بعد ، ہمیں بتایا گیا کہ والد کی موت ہوگئی ہے، اور نرس نے 10 منٹ کے بعد کہا کہ مریض کی سانسیں چل رہی ہیں۔
میں نے کہا ڈاکٹر سے تم اچھے سے علاج کرو، لیکن ڈاکٹروں کی یہ لاپرواہی چل رہی ہے اور پھر شام کو بتایا جارہا ہے کہ مریض کے گلے کا آپریشن کیا جائے گا۔ پھر بعد میں آپریشن کے دوران 6 بجے اپ ڈیٹ آتا کہ آپریشن کرتے وقت موت ہو گئی ہے۔
جب ہم نے آکر دیکھا کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ جب ہمارا کنبہ مریض دیکھنے گیا تو مریض کو وینٹیلیٹر پر بھرتی تھا۔ ہمیں لاش بھی دی جانے لگی۔ جب ہم نے کہا کہ ہمیں مردہ جسم کا چہرہ دیکھ لیں۔ چہرہ دیکھنے کے لیے گیے تو چہرہ ہمارے مریض کا نہیں، جبکہ ہمارا مریض زندہ ہے۔
میڈیکل کالج کے ڈین سنیل نندیشور کا کہنا ہے کہ کورونا کی وجہ سے ہلچل بڑھ گئی ہے۔ کہیں مریض وینٹیلیٹر پر ہے، تو دوسرے کی سانس پھول رہی ہے ایسے میں کبھی کبھی اس طرح کا ہو جاتا ہے۔
ڈین نے بتایا کہ مریض وینٹیلیٹر پر ہی تھے۔ اگر اس کے دل کی دھڑکن رک گئی تھی، تو اس وقت ایک نرس نے بتایا دیا کہ اس کی موت ہو گئی ہے، مگر دل کی دھڑکن رکتی ہے تو اس کے بعد میں ڈاکٹر دل کو دونوں ہاتوں سے دبا کر دل کی دھڑکن کو دوبارہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس میں قریب ایک سے دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں:
رمضان اور نوراتری کے پیش نظر پھلوں کی قیمت میں اضافہ
ڈین نے کہا کہ ہمارے یہاں ڈاکٹروں نے دوبارہ ریوائز کیا اور دوبارہ ریوائز کرنے کے بعد دھڑکنیں واپس آئیں اور ان کو پھر ہم نے وینٹیلیٹر پر رکھا تھا۔ اس وجہ سے یہ تھوڑا کنفیوژن ہو گیا تھا۔ ہم نے ان کے اہل خانہ کو بتا دیا ہے کہ مریض وینٹیلیٹر پر ہے۔