ETV Bharat / state

Reaction on Jamiat Ulema Programme دہلی کے اجلاس پر مدھیہ پردیش جمعیت کا ردعمل - دہلی میں جمعیت علماء کے اجلاس پر ردعمل ایم پی جمعی

جمعیت علمائے ہند کا 34واں اجلاس 12 فروری کو دہلی میں منعقد کیا گیا جس میں کئی تجاویز اور مسائل پر بات ہوئی۔ تاہم دوسری جانب مولانا ارشد مدنی کے بیان پر دیگر مذہبی رہنماؤں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ اجلاس میں کن مسائل پر بات ہوئی اور ہندو مذہبی رہنماؤں نے کیوں ناراضگی دکھائی۔ اس پر مدھیہ پردیش جمعیت علماء کے صدر حاجی محمد ہارون سے ای ٹی وہی بھارت کے نمائندہ قمر غوث نے گفتگو کی ہے۔

Reaction on Jamiat Ulema Meeting
Reaction on Jamiat Ulema Meeting
author img

By

Published : Feb 15, 2023, 1:13 PM IST

مدھیہ پردیش جمعیت علماء کے صدر محمد ہارون سے ای ٹی وہی بھارت کے نمائندہ کی گفتگو

بھوپال: دہلی میں ہوئے جمعیت علمائے ہند کے 34ویں اجلاس عام پر مدھیہ پردیش جمعیت علماء کے صدر حاجی محمد ہارون نے اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں ملک کے ساتھ بیرونی ملک کے لوگوں نے بھی شرکت کی۔ مدھیہ پردیش سے بھی بڑی تعداد میں جمعیت کے کارکنان نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس بہت کامیاب رہا اور اس کے مفید اثرات جلد سامنے آئیں گے۔ اجلاس میں ملک میں جس طرح کے حالات چل رہے ہیں اس پر خصوصی طور پر بات کی گئی۔ ان حالات پر ہم کس طرح سے قابو پائیں اور اس میں قانونی طور پر کیا کیا جائے اس پر بات کی گئی۔ ساتھ ہی ملک میں محبت اور سدبھاؤنا کا ماحول کیسا ہو اور تمام ملک میں رہنے والے اور مختلف مذاہب کو ماننے والوں کے ساتھ جمعیت کا سدبھاؤنا منچ کس طرح سے کام کرے گا اسے کیسے مستحکم کیا جائے اس پر غور کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:

اسی طرح سے ملک میں جو آزاد مدارس چل رہے ہیں ان میں بھی کہیں نہ کہیں پریشانیوں کی شکایت آ رہی ہے ان کے مسائل کو دور کرنے پر بھی غور کیا گیا۔ یکساں سول کوڈ پر بھی غور کیا گیا۔ حاجی ہارون نے کہا کہ ملک میں جو یکساں چیزیں ہو سکتی تھی وہ ہو چکی ہیں۔ لیکن ملک کا ایک الگ پرسنل لا ہے اور ہر ایک مذاہب کے ماننے والوں کی عقیدت، ریتی رواج سب الگ ہیں۔ اس لیے یکساں سول کوڈ کا نفاذ ملک میں ناممکن ہے۔ اس پر بھی اجلاس میں تجویز رکھی گئی۔ اسی طرح اجلاس میں کہا گیا کہ ہم مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں ماگتے ہیں لیکن اقتصادی اور پچھڑاپن اور ذات پات کی بنیاد پر مسلمانوں کو محروم کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم مسلمانوں کا پچھڑاپن اور سماجی نابرابری کی بنیاد پر ریزرویشن دیا جائے اس پر تجویز رکھی گئی۔

ساتھ ہی ملک میں بڑی تعداد میں اوقاف موجود ہیں اور آزادی کے بعد مسلمانوں کے لیے وقف بورڈ بنا دیا گیا لیکن وقف بورڈ کے باوجود اس کے خاطر خواہ اس کے نتیجہ نہیں نکل رہے ہیں۔ اس پر تجاویز رکھی گئیں اور اس پر آگے کیا لائحہ عمل ہوگا اس کے لیے کمیٹی بنائی گئی۔ وہی اس بات پر خاص طور سے غور کیا گیا کہ جس طرح سے مذہبی رہنماؤں اور پیغمبروں پر بیان بازی اور نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے خلاف بھی آواز بلند کی گئی اور مذمت کی گئی اور اس پر سخت قانون بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ حاجی ہارون نے کہا کہ ہم بھی اس ملک میں رہتے ہیں اور ووٹروں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اس لیے ہم نے اجلاس میں مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ ووٹ ڈالنے میں لاپرواہی نہ کریں کیوں کہ حکومت ایک ووٹ سے بنتی بھی ہے اور گرتی بھی ہے۔

دوسری جانب جمعیت علماء ہند جمعیت اوپن اسکول کا نظام چلاتی ہے۔ اس پر جمیعت کے قومی ذمہ دار مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ جو لوگ تعلیم سے دور ہوگئے ہیں وہ جمعیت اوپن اسکول کے ذریعے اپنی تعلیم مکمل کرنے کا کام کریں۔ اسی طرح سے جمعیت یوتھ اسکاوٹ گائیڈ کی تربیت بھی دی جاتی ہے تاکہ ملک کا اور خدمت خلق کا نوجوانوں میں جذبہ پیدا ہو اس پر بھی غور و فکر کیا گیا۔ جو کام حکومت کے ذریعے ہونا چاہیے ادھر بھی توجہ دی گی اور جو مسلمانوں کو خود اپنے طور پر کیا جانا چاہیے اس پر بھی غور و فکر کیا گیا۔ اجلاس میں حاجی محمد ہارون نے لڑکیوں کی تعلیم پر خاص طور سے بات کی اور انہیں بھی لڑکوں کی طرح ہی تعلیم یافتہ بنانے پر زور دیا۔
اجلاس کے دوران جب مولانا ارشد مدنی کے بیان پر جین اور ہندو مذہب کے کئی رہنما نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس سے چلے گئے اس معاملے پر حاجی محمد ہارون نے کہا کہ مولانا ارشد مدنی نے ایسی کوئی بھی بات نہیں کہی جس سے لوگوں میں ناراضگی ہو۔ انہوں نے کہا کہ مولانا ارشد مدنی نے اسلام کی بنیادی بات بتائیں جسے کچھ لوگ سمجھ نہیں پائے۔ حاجی محمد ہارون نے کہا کہ یہ بات اسلام میں مضبوطی کے ساتھ کہی جاتی ہے اور دنیا بھی یہ مانتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جنہیں ہم آدم کہتے ہیں اور ہندو مذہب کے لوگ منو کہتے ہیں۔ اس لیے آدم سے آدمی بننا اور منو سے منوش بنا ہے اور پوری دنیا ایک خدا کو ماننے والی ہے جسے ہر مذہب کے لوگ اللہ، گاڈ، اور ہندو مذہب کے لوگ اوم یا بھگوان کہتے ہیں۔ ان ہی سب باتوں کو مولانا سید ارشد مدنی اسٹیج سے بتا رہے تھے۔ لیکن جین اور ہندو مذہب کے کچھ رہنماؤں کو ان کی بات سمجھ میں نہیں آئی اور انھوں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ حاجی محمد ہارون نے کہا کہ جو لوگ یہ بات سمجھ نہیں پائے موقع آنے پر ہم ان سے اس سلسلہ میں ضرور بات کریں گے۔

مدھیہ پردیش جمعیت علماء کے صدر محمد ہارون سے ای ٹی وہی بھارت کے نمائندہ کی گفتگو

بھوپال: دہلی میں ہوئے جمعیت علمائے ہند کے 34ویں اجلاس عام پر مدھیہ پردیش جمعیت علماء کے صدر حاجی محمد ہارون نے اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں ملک کے ساتھ بیرونی ملک کے لوگوں نے بھی شرکت کی۔ مدھیہ پردیش سے بھی بڑی تعداد میں جمعیت کے کارکنان نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس بہت کامیاب رہا اور اس کے مفید اثرات جلد سامنے آئیں گے۔ اجلاس میں ملک میں جس طرح کے حالات چل رہے ہیں اس پر خصوصی طور پر بات کی گئی۔ ان حالات پر ہم کس طرح سے قابو پائیں اور اس میں قانونی طور پر کیا کیا جائے اس پر بات کی گئی۔ ساتھ ہی ملک میں محبت اور سدبھاؤنا کا ماحول کیسا ہو اور تمام ملک میں رہنے والے اور مختلف مذاہب کو ماننے والوں کے ساتھ جمعیت کا سدبھاؤنا منچ کس طرح سے کام کرے گا اسے کیسے مستحکم کیا جائے اس پر غور کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:

اسی طرح سے ملک میں جو آزاد مدارس چل رہے ہیں ان میں بھی کہیں نہ کہیں پریشانیوں کی شکایت آ رہی ہے ان کے مسائل کو دور کرنے پر بھی غور کیا گیا۔ یکساں سول کوڈ پر بھی غور کیا گیا۔ حاجی ہارون نے کہا کہ ملک میں جو یکساں چیزیں ہو سکتی تھی وہ ہو چکی ہیں۔ لیکن ملک کا ایک الگ پرسنل لا ہے اور ہر ایک مذاہب کے ماننے والوں کی عقیدت، ریتی رواج سب الگ ہیں۔ اس لیے یکساں سول کوڈ کا نفاذ ملک میں ناممکن ہے۔ اس پر بھی اجلاس میں تجویز رکھی گئی۔ اسی طرح اجلاس میں کہا گیا کہ ہم مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں ماگتے ہیں لیکن اقتصادی اور پچھڑاپن اور ذات پات کی بنیاد پر مسلمانوں کو محروم کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم مسلمانوں کا پچھڑاپن اور سماجی نابرابری کی بنیاد پر ریزرویشن دیا جائے اس پر تجویز رکھی گئی۔

ساتھ ہی ملک میں بڑی تعداد میں اوقاف موجود ہیں اور آزادی کے بعد مسلمانوں کے لیے وقف بورڈ بنا دیا گیا لیکن وقف بورڈ کے باوجود اس کے خاطر خواہ اس کے نتیجہ نہیں نکل رہے ہیں۔ اس پر تجاویز رکھی گئیں اور اس پر آگے کیا لائحہ عمل ہوگا اس کے لیے کمیٹی بنائی گئی۔ وہی اس بات پر خاص طور سے غور کیا گیا کہ جس طرح سے مذہبی رہنماؤں اور پیغمبروں پر بیان بازی اور نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے خلاف بھی آواز بلند کی گئی اور مذمت کی گئی اور اس پر سخت قانون بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ حاجی ہارون نے کہا کہ ہم بھی اس ملک میں رہتے ہیں اور ووٹروں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اس لیے ہم نے اجلاس میں مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ ووٹ ڈالنے میں لاپرواہی نہ کریں کیوں کہ حکومت ایک ووٹ سے بنتی بھی ہے اور گرتی بھی ہے۔

دوسری جانب جمعیت علماء ہند جمعیت اوپن اسکول کا نظام چلاتی ہے۔ اس پر جمیعت کے قومی ذمہ دار مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ جو لوگ تعلیم سے دور ہوگئے ہیں وہ جمعیت اوپن اسکول کے ذریعے اپنی تعلیم مکمل کرنے کا کام کریں۔ اسی طرح سے جمعیت یوتھ اسکاوٹ گائیڈ کی تربیت بھی دی جاتی ہے تاکہ ملک کا اور خدمت خلق کا نوجوانوں میں جذبہ پیدا ہو اس پر بھی غور و فکر کیا گیا۔ جو کام حکومت کے ذریعے ہونا چاہیے ادھر بھی توجہ دی گی اور جو مسلمانوں کو خود اپنے طور پر کیا جانا چاہیے اس پر بھی غور و فکر کیا گیا۔ اجلاس میں حاجی محمد ہارون نے لڑکیوں کی تعلیم پر خاص طور سے بات کی اور انہیں بھی لڑکوں کی طرح ہی تعلیم یافتہ بنانے پر زور دیا۔
اجلاس کے دوران جب مولانا ارشد مدنی کے بیان پر جین اور ہندو مذہب کے کئی رہنما نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس سے چلے گئے اس معاملے پر حاجی محمد ہارون نے کہا کہ مولانا ارشد مدنی نے ایسی کوئی بھی بات نہیں کہی جس سے لوگوں میں ناراضگی ہو۔ انہوں نے کہا کہ مولانا ارشد مدنی نے اسلام کی بنیادی بات بتائیں جسے کچھ لوگ سمجھ نہیں پائے۔ حاجی محمد ہارون نے کہا کہ یہ بات اسلام میں مضبوطی کے ساتھ کہی جاتی ہے اور دنیا بھی یہ مانتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جنہیں ہم آدم کہتے ہیں اور ہندو مذہب کے لوگ منو کہتے ہیں۔ اس لیے آدم سے آدمی بننا اور منو سے منوش بنا ہے اور پوری دنیا ایک خدا کو ماننے والی ہے جسے ہر مذہب کے لوگ اللہ، گاڈ، اور ہندو مذہب کے لوگ اوم یا بھگوان کہتے ہیں۔ ان ہی سب باتوں کو مولانا سید ارشد مدنی اسٹیج سے بتا رہے تھے۔ لیکن جین اور ہندو مذہب کے کچھ رہنماؤں کو ان کی بات سمجھ میں نہیں آئی اور انھوں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ حاجی محمد ہارون نے کہا کہ جو لوگ یہ بات سمجھ نہیں پائے موقع آنے پر ہم ان سے اس سلسلہ میں ضرور بات کریں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.