ETV Bharat / state

IPS Khalid Qaiser جذبات کو لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں خالد قیصر

ملک کے مشہور شاعر اور آئی پی ایس افسر قیصر خالد نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے اپنی زندگی کے بارے تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ حساس آدمی بننے کے لئے درد کا تجربہ ہونا ضروری ہے۔

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 11, 2023, 4:15 PM IST

جذبات کو لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں خالد قیصر
جذبات کو لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں خالد قیصر
جذبات کو لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں خالد قیصر

بھوپال: آئی پی ایس افسر اور شاعر قیصر خالد نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کامیاب بننے کے لیے حساس ْآدمی بننا ضروری ہے۔ انہوں نے اپنے لکھنے کے تعلق سے کہا کہ اگر آپ کسی سرجن کے پاس علاج کے لیے جاتے ہیں تو وہ زخم آپ کا بہت درد دیتا ہے ٹیس دیتا ہے۔ لیکن جب ڈاکٹر اپ کے زخموں سے خراب چیزیں نکال کر اس پر مرہم لگاتا ہے تو اپ کو سکون ملتا ہے۔ اس میرا لکھنا میرے لیے کیتھارٹک عمل ہے۔

جب درد ملے اتنے ہم کو ان کا ہی کاروبار کیا۔
خوشیوں کی نقدی دے کر غم کا سودا کتنی بار کیا

آئی پی ایس افسر اور شاعر قیصر خالد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کامیاب بننے کے لیے حساس آدمی بننا ضروری ہے۔ انہوں نے اپنے لکھنے کے تعلق سے کہا کہ اگر آپ کسی سرجن کے پاس علاج کے لیے جاتے ہیں تو وہ زخم آپ کا بہت درد دیتا ہے ٹیس دیتا ہے۔ لیکن جب ڈاکٹر اپ کے زخموں سے خراب چیزیں نکال کر اس پر مرہم لگاتا ہے تو آپ کو سکون ملتا ہے۔ اس میرا لکھنا میرے لیے کیتھارٹک عمل ہے۔ اور اس نے مجھے حوصلہ افزائی کی کہ میں اس جانب کچھ لکھوں، اور اس طرح سے لکھنے کا سلسلہ جاری ہوا تو اب اللہ کا شکر ہے کہ مجھے مہاراشٹر ساہیتہ اکیڈمی نے اعزاز سے بھی نوازا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اور ملک اور بیرونی ملک میں نہ صرف ایک افسر کے طور پر بلکہ ایک اچھے شاعر، مقرر، ایک اچھے کونسلر کے طور پر میری پہچان بن گئی ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ جو میرے دل و ذہین پہ گزر رہی ہے اسے میں لوگوں تک پہنچاؤں۔ اس سوال پر کہ انہوں نے اپنی پہلی نظم یا کوئی غزل کب لکھی اور اب تک ان کی کتنی کتابیں منظر عام پر آچکی ہے۔

اس پر قیصر خالد نے بتایا کہ میں نے جب دو ڈائری مکمل کر لی تو اسے میں نے اپنے استاد کو دکھایا کیونکہ جب آپ کوئی چیز کو منظر عام پر لاتے ہیں تو اس کی نشاندہی ضروری ہوتی ہے۔ اور میرے استاد نے مجھ سے میرا پہلا کلام پھر سے لکھنے کو کہا اور میں نے اپنی پہلے کلام کو کاٹ دیا اور ایک بار پھر اسے لکھا اور یقین مانیے یہ میرے لیے بڑا دشوار مرحلہ تھا۔ اس پر انہوں نے بشیر بدر کا شیر کوٹ کیا۔

ہزاروں شعر سو گئے میرے کاغذ کی قبروں میں
میں وہ ماں ہوں جس کا بچہ زندہ نہیں رہتا

قیصر خالد نے کہا کہ ہمیں اس مرحلے سے بار بار گزرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا میں یہ بات جانتا ہوں کہ بہت زیادہ کہنا ضروری نہیں ہے لیکن بہت اچھا لکھنا ضروری ہے۔ اس لیے بار بار تراش خراش کا عمل چلتا رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی اب تک دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں شعور اس اور دشت جاں اور انہیں ان کتابوں کے ذریعے رائلٹی جی مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا اگر میری شاعری میں جان ہے دم ہے اور شعور ہے تو وہ ضرور منظر عام پر ائے گی۔ قیصر خالد نے اپنے لکھے کلام سے اپنا شعر سناتے ہوئے کہا کہ اس شیر نے مجھے بہت مشہور کیا کی

یہ ہے دور ہوس لیکن ایسا بھی کیا
آدمی کم سے کم آدمی تو رہے

اس لیے یہ میرا پیغام بھی ہے کہ انسان کو انسان رہنا چاہیے اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کے طور پر اپنی ذمہ داریوں کو پوری کرنا چاہیں۔ واضح رہے کی قیصر خالد جتنے مشہور و معروف شاعر ہے وہیں آپ آئی پی ایس افسر بھی ہے۔ اور وہ اس وقت ممبئی میں اپنی ملازمت کے فرائض کو انجام دے رہے ہیں۔ قیصر خالد نے اپنے تعلیمی سفر اور معاشرے کے بچوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ میں سوشل میڈیا کے ذریعے تعلیمی پیغام لگاتار دے رہا ہوں اور طلبات کو موٹیویٹ کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا میری زندگی کا مقصد یہ بھی رہا ہے کہ اپنے جیسے ہزاروں لوگوں کو تیار کرنا ہے۔ کیونکہ جو غلطیاں ہم سے ہوئی اور جو ٹھوکریں ہم نے کھائی جو دشواریاں دیکھی وہ ہماری نسل کو نہیں دیکھنی چاہیے۔ اس لیے میری کوشش یہ رہتی ہے کہ ہمارے معاشرے کی وہ طبقہ جو جن کے پاس سہولیات نہیں ہیں میں ان کی کونسلنگ کروں اور میری بہت ساری گفتگو انہی سب چیزوں پر ہے کہ کس طرح سے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کی جائے۔ ہم اپنی تعلیم کیسے حاصل کرے اور والدین اپنے بچوں کے ساتھ کس طرح سے پیش آئے یہ سب سوشل میڈیا کے ذریعے میں بتاتے رہتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:World Urdu Day Celebration بھوپال میں یوم اردو پر جشن کی تقریب کا انعقاد

ان کا کہنا ہے کہ ان سب کے کئی پہلو ہیں جس میں پہلا یہ ہے کہ ہمیں خواب دیکھنا چاہیے اگر ہمارے خواب بڑے نہیں ہوں گے تو ہم اس راستے پر جا ہی نہیں سکتے جو تکمیل کی طرف لے جاتا ہے۔دوسرا پہلو یہ کہ میں تمام والدین سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے بچوں کے تمام خواب گھر ہی میں ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہم اپنی ناکامی کو بچوں کی طرف ڈھکیل دیتے ہیں۔ ہم ان کا حوصلہ توڑ دیتے ہیں ان کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا سیکھنا پڑے گا۔ اس لیے ہم اسے جس طرح کا بننا دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں بھی اس طرح کا بننا پڑے گا۔ تیسری پہلو پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں میں تمام والدین اور بچوں سے کہنا چاہوں گا۔اس لیے اگر آپ کا مقصد اعلی ہو تو ان سب چیزوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔میں تمام والدین سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرے اگر کچھ کمی نظر اتی ہے تو انہیں پھر سے کھڑا ہونے کی ہمت بنائے۔ چوتھے پہلو پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آپ کا کوئی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ اعلی ہے تو اپ کو اسی حساب سے محنت اور تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ صلاحیت اپ کو اپنے اندر پیدا کرنی پڑے گی۔

جذبات کو لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں خالد قیصر

بھوپال: آئی پی ایس افسر اور شاعر قیصر خالد نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کامیاب بننے کے لیے حساس ْآدمی بننا ضروری ہے۔ انہوں نے اپنے لکھنے کے تعلق سے کہا کہ اگر آپ کسی سرجن کے پاس علاج کے لیے جاتے ہیں تو وہ زخم آپ کا بہت درد دیتا ہے ٹیس دیتا ہے۔ لیکن جب ڈاکٹر اپ کے زخموں سے خراب چیزیں نکال کر اس پر مرہم لگاتا ہے تو اپ کو سکون ملتا ہے۔ اس میرا لکھنا میرے لیے کیتھارٹک عمل ہے۔

جب درد ملے اتنے ہم کو ان کا ہی کاروبار کیا۔
خوشیوں کی نقدی دے کر غم کا سودا کتنی بار کیا

آئی پی ایس افسر اور شاعر قیصر خالد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کامیاب بننے کے لیے حساس آدمی بننا ضروری ہے۔ انہوں نے اپنے لکھنے کے تعلق سے کہا کہ اگر آپ کسی سرجن کے پاس علاج کے لیے جاتے ہیں تو وہ زخم آپ کا بہت درد دیتا ہے ٹیس دیتا ہے۔ لیکن جب ڈاکٹر اپ کے زخموں سے خراب چیزیں نکال کر اس پر مرہم لگاتا ہے تو آپ کو سکون ملتا ہے۔ اس میرا لکھنا میرے لیے کیتھارٹک عمل ہے۔ اور اس نے مجھے حوصلہ افزائی کی کہ میں اس جانب کچھ لکھوں، اور اس طرح سے لکھنے کا سلسلہ جاری ہوا تو اب اللہ کا شکر ہے کہ مجھے مہاراشٹر ساہیتہ اکیڈمی نے اعزاز سے بھی نوازا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اور ملک اور بیرونی ملک میں نہ صرف ایک افسر کے طور پر بلکہ ایک اچھے شاعر، مقرر، ایک اچھے کونسلر کے طور پر میری پہچان بن گئی ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ جو میرے دل و ذہین پہ گزر رہی ہے اسے میں لوگوں تک پہنچاؤں۔ اس سوال پر کہ انہوں نے اپنی پہلی نظم یا کوئی غزل کب لکھی اور اب تک ان کی کتنی کتابیں منظر عام پر آچکی ہے۔

اس پر قیصر خالد نے بتایا کہ میں نے جب دو ڈائری مکمل کر لی تو اسے میں نے اپنے استاد کو دکھایا کیونکہ جب آپ کوئی چیز کو منظر عام پر لاتے ہیں تو اس کی نشاندہی ضروری ہوتی ہے۔ اور میرے استاد نے مجھ سے میرا پہلا کلام پھر سے لکھنے کو کہا اور میں نے اپنی پہلے کلام کو کاٹ دیا اور ایک بار پھر اسے لکھا اور یقین مانیے یہ میرے لیے بڑا دشوار مرحلہ تھا۔ اس پر انہوں نے بشیر بدر کا شیر کوٹ کیا۔

ہزاروں شعر سو گئے میرے کاغذ کی قبروں میں
میں وہ ماں ہوں جس کا بچہ زندہ نہیں رہتا

قیصر خالد نے کہا کہ ہمیں اس مرحلے سے بار بار گزرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا میں یہ بات جانتا ہوں کہ بہت زیادہ کہنا ضروری نہیں ہے لیکن بہت اچھا لکھنا ضروری ہے۔ اس لیے بار بار تراش خراش کا عمل چلتا رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی اب تک دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں شعور اس اور دشت جاں اور انہیں ان کتابوں کے ذریعے رائلٹی جی مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا اگر میری شاعری میں جان ہے دم ہے اور شعور ہے تو وہ ضرور منظر عام پر ائے گی۔ قیصر خالد نے اپنے لکھے کلام سے اپنا شعر سناتے ہوئے کہا کہ اس شیر نے مجھے بہت مشہور کیا کی

یہ ہے دور ہوس لیکن ایسا بھی کیا
آدمی کم سے کم آدمی تو رہے

اس لیے یہ میرا پیغام بھی ہے کہ انسان کو انسان رہنا چاہیے اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کے طور پر اپنی ذمہ داریوں کو پوری کرنا چاہیں۔ واضح رہے کی قیصر خالد جتنے مشہور و معروف شاعر ہے وہیں آپ آئی پی ایس افسر بھی ہے۔ اور وہ اس وقت ممبئی میں اپنی ملازمت کے فرائض کو انجام دے رہے ہیں۔ قیصر خالد نے اپنے تعلیمی سفر اور معاشرے کے بچوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ میں سوشل میڈیا کے ذریعے تعلیمی پیغام لگاتار دے رہا ہوں اور طلبات کو موٹیویٹ کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا میری زندگی کا مقصد یہ بھی رہا ہے کہ اپنے جیسے ہزاروں لوگوں کو تیار کرنا ہے۔ کیونکہ جو غلطیاں ہم سے ہوئی اور جو ٹھوکریں ہم نے کھائی جو دشواریاں دیکھی وہ ہماری نسل کو نہیں دیکھنی چاہیے۔ اس لیے میری کوشش یہ رہتی ہے کہ ہمارے معاشرے کی وہ طبقہ جو جن کے پاس سہولیات نہیں ہیں میں ان کی کونسلنگ کروں اور میری بہت ساری گفتگو انہی سب چیزوں پر ہے کہ کس طرح سے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کی جائے۔ ہم اپنی تعلیم کیسے حاصل کرے اور والدین اپنے بچوں کے ساتھ کس طرح سے پیش آئے یہ سب سوشل میڈیا کے ذریعے میں بتاتے رہتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:World Urdu Day Celebration بھوپال میں یوم اردو پر جشن کی تقریب کا انعقاد

ان کا کہنا ہے کہ ان سب کے کئی پہلو ہیں جس میں پہلا یہ ہے کہ ہمیں خواب دیکھنا چاہیے اگر ہمارے خواب بڑے نہیں ہوں گے تو ہم اس راستے پر جا ہی نہیں سکتے جو تکمیل کی طرف لے جاتا ہے۔دوسرا پہلو یہ کہ میں تمام والدین سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے بچوں کے تمام خواب گھر ہی میں ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہم اپنی ناکامی کو بچوں کی طرف ڈھکیل دیتے ہیں۔ ہم ان کا حوصلہ توڑ دیتے ہیں ان کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا سیکھنا پڑے گا۔ اس لیے ہم اسے جس طرح کا بننا دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں بھی اس طرح کا بننا پڑے گا۔ تیسری پہلو پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں میں تمام والدین اور بچوں سے کہنا چاہوں گا۔اس لیے اگر آپ کا مقصد اعلی ہو تو ان سب چیزوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔میں تمام والدین سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرے اگر کچھ کمی نظر اتی ہے تو انہیں پھر سے کھڑا ہونے کی ہمت بنائے۔ چوتھے پہلو پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آپ کا کوئی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ اعلی ہے تو اپ کو اسی حساب سے محنت اور تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ صلاحیت اپ کو اپنے اندر پیدا کرنی پڑے گی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.